گلگت بلتستان میں شکست کے بعد پی پی اندرون سندھ کی جماعت بن کررہ گئی
لاہور (سید شعیب الدین سے) 48 برس کی عمر کو پہنچنے والی پیپلز پارٹی خیبر پی کے بلدیاتی انتخابات اور گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات میں بدترین شکست کے بعد حقیقی معنوں میں ایک صوبے بلکہ اندرون سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی۔ بلاول بھٹو کو میدان عمل میں اترنے سے پہلے ہی اپنی جماعت کی پے در پے شکستوں کے بعد اب سوچنا ہوگا کہ پارٹی کی بحالی کیلئے کیالائحہ عمل اختیار کریں کہ انکی جماعت دوبارہ چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی جماعت بن سکے۔ پیپلز پارٹی کو 2013ء کے انتخابات میں تاریخ کی بدترین شکست ہوئی تھی اور پارٹی صرف اپنی ہوم گرائونڈ تک محدود ہوگئی تھی مگر پارٹی قیادت کا دعویٰ تھا کہ ابھی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں انکی حکومتیں ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد ہر ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کو پے درپے شکستیں ہوئیں اور پارٹی تیسرے نمبر کی جماعت بن کر رہ گئی۔ 5 سالہ دور حکومت کے بعد بدترین شکست کا جو منظر 2013ء میں دیکھنے میں آیا وہی 2015ء میں بھی دیکھنے کو ملا مگر جگہ مختلف تھی۔ پیپلز پارٹی 24 میں سے صرف ایک نشست جیت سکی۔ آئندہ برس آزاد کشمیر کے انتخابات بھی اس حوالے سے بے حد اہم ہیں جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ بلاول بھٹو ایک مشکل وقت میں میدان عمل میں اتر رہے ہیں۔ انکی والدہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد کڑا وقت گزارا مگر جب وہ بیرون ملک سے واپس آئیں تو لاہور میں ان کا وہ فقید المثال استقبال ہوا کہ جس کا آج کے لیڈرخواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کڑے وقت سے گزریں مگر اس کے باوجود جب وطن واپس آئیں تو ان کی جماعت آج جیسے برے حالات کا شکار نہیں تھی۔ آج بلاول بھٹو کو اپنی والدہ کے مقابلے میں کہیں بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ جسے بے نظیر بھٹو نے ہرا کر پہلا الیکشن جیتا تھا، آج پنجاب کی بلاشرکت غیرے مالک ہے۔ گلگت بلتستان میں اس کی حکومت آرہی ہے۔ بلوچستان میں وہ شریک اقتدار ہے۔ تحریک انصاف تیزی سے ملک کی دوسری بڑی پارٹی کا روپ دھار رہی ہے اور آصف زرداری کی قیادت میں گزشتہ 8 سال سے گرم سرد کا سامنا کرنے والی پیپلز پارٹی اپنی تاریخ کے بدترین مقام پر کھڑی ہے۔ بلاول بھٹو کا پہلا امتحان پنجاب کے بلدیاتی انتخابات ہیں، وہی پنجاب جہاں 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے نو آموزوں نے بڑے بڑے جغادریوں کو شکست دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو سے ورثے میں جو سیاسی پارٹی ملی، وہ بلاول بھٹو کو ان کے والد آصف زرداری منتقل نہیں کررہے۔