غذر میں اوسطاً سالانہ 20 خواتین خودکشی کرتی ہیں: انسانی حقوق کمشن
غذر (گلگت) (نیٹ نیوز/ بی بی سی) گلگت سے دو گھنٹے کی مسافت پر ضلع غذر زمین پر کسی جنت سے کم نہیں۔ زرمینہ اسی علاقے کی رہنے والی ہیں۔ ان کی عمر 20 سال ہے۔ زرمینہ نے چند ماہ پہلے خود کشی کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیسے میں نے بندوق ڈھونڈی اور کیسے اس میں کارتوس ڈالے اور خود کو گولی مار لی۔ میرا دماغ ماؤف ہوگیا تھا۔ مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں ہسپتال میں تھی۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں نے کیا کر دیا۔ زرمینہ نے بتایا کہ جب ان کے والد کاانتقال ہوا تو اس کی عمر 13 برس تھی۔گھر میں کوئی کمانے والا نہیں تھا۔ وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئی۔ ماں نے علاج کیا کرانا تھا، 15 سال کی عمر میں اس کی شادی کر دی۔ زرمینہ نے بتایا میرا شوہر بیروزگار سہی لیکن بہت اچھا ہے۔ میں پریشان تھی تو صرف اپنی بیماری کی وجہ سے۔ مجھے لگتا تھا کہ میں سب پر بوجھ ہوں اسی لیے سوچا کہ خود کو ختم کر لوں۔ صرف زرمینہ ہی نہیں غذر کی خواتین میں خود کشی کی شرح غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔ یہاں کی کل آبادی ڈیڑھ لاکھ ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق یہاں اوسطاً سالانہ 20 خواتین اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہی ہیں۔ اسرار الدین اسرار گلگت بلتستان کے لیے انسانی حقوق کمیشن کے رابطہ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں 1999 سے خواتین میں خود کشی کا رجحان شروع ہوا۔ 2004 میں یہ عروج پر تھا۔ کچھ عرصہ اس میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن اب پھر اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔