اقتصادی راہداری پر بھارت کی پریشانی
کہتے ہیں دشمنی اور غصہ تمامتر کوشش کے باوجود چھپائے نہیں جا سکتے اور جب یہ دونوں اکٹھے ہو جائیں اچھے بھلے ہوشمند انسان درندے بن جاتے ہیں۔انسان پاگل پن کی حالت تک پہنچ جاتے ہیں ۔ یہی حال اس وقت بھارت کا ہے۔بھارت کی پاکستان دشمنی تو تخلیق پاکستان کے وقت سے ہی جاری ہے جس سے ہم سب واقف ہیں۔ اب اس میں غصہ بھی شامل ہوگیا ہے۔ غصے کا عمل اس دن سے شروع ہوا جس دن چین اور پاکستان نے اقتصادی راہداری بنانے پر اتفاق کیا۔غصہ اتنا کہ سب سے پہلے تو ’’را‘‘ میں ایک خصوصی ڈیسک قائم کیا گیا جس کیلئے تین کروڑ ڈالرز کا فنڈ مہیا کیا گیا کہ اقتصادی راہداری کسی قیمت پر پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دی جائے۔ ’’را ‘‘میں خصوصی ڈیسک کے قیام سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ راہداری بھارت کیلئے کتنی تکلیف دہ ہے۔ پھر بھارتی وزیر اعظم نے چین جا کر چینی قیادت کو بھی اس منصوبے سے باز رہنے کیلئے تگ و دو کی، گو انکی بات وہاں مانی نہیں گئی۔بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج صاحبہ نے بھی سخت الفاظ میں بیان دیا کہ ’’یہ منصوبہ کسی صورت قابل قبول نہیں‘‘۔اس بیان سے پہلے بھارتی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع نے ’’ دہشتگردی کو دہشتگردی سے ختم کرنے‘‘ جیسے سخت بیانات دئیے ۔گو یہ بیانات بالواسطہ طور پر تو راہداری کے متعلق نہ تھے لیکن اس ’’آئوٹ برسٹ‘‘ کی تہہ میں بھی یہی منصوبہ ہے اور یہی انکے سینوں پر بھاری گزر رہا ہے۔ اب بھارتی وزیر اعظم مودی اسرائیل کے دورے پر جا رہے ہیں جہاں اس منصوبے کو ناکام بنانے پر گفت و شنید ہوگی اور موساد سے خصوصی تعاون کی درخواست کی جائیگی۔یاد رہے کہ ماضی میں ہر مشکل وقت پر اسرائیل نے بھارت کی مدد کی خصوصاً جہاں معاملہ پاکستان بھارت کا ہو تو اسرائیل مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارت اتنا پریشان کیوں ہے؟ اگر معاملہ صرف اقتصادیات کا ہوتا تو کسی حد تک قابل برداشت ہوتا مگر یہ تو کسی صورت قابل برداشت نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ محض اقتصادیات سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے۔ دراصل معاملہ پاکستان کی سالمیت کا ہے جس کی جڑیں 1947کی تقسیم ہند میںپیوستہ ہیں۔ اسوقت کچھ ہندو لیڈروں نے بیان دیا تھا کہ : ’’ اول تو ہم پاکستان بننے نہیں دینگے اور اگر یہ بن بھی گیا تو ہم اسے قائم نہیں رہنے دینگے۔‘‘ یہ وہ بنیادی فلاسفی ہے جس پر ہندوستان روز اول سے کام کررہا ہے۔ ہندوستان ظاہری طور پر اچھے پڑوسی ہونے یا تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے بیانات دیتا رہتا ہے لیکن دلی طور پر ہندوستان کبھی بھی اپنی پالیسی سے دائیں بائیں نہیں ہوا۔ 1947میں حیدرآباد اور کشمیر پر بزور شمشیر قبضہ کیا اور پھر موقع ملنے پر 1971میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کردیا ۔یہ ہماری خصوصاً ہمارے راہنمائوں کی غلط فہمی ہے کہ بھارت ہم سے دوستی چاہتا ہے یا کبھی دوستی کریگا۔
بھارت اسوقت بلوچستان کی علیحٰدگی پر عمل پیرا ہے اس مقصد کیلئے بھارت نے افغانستان میں اپنے قونصل خانے قائم کئے جہاں با قاعدہ تربیتی کیمپس قائم ہیں اور باغی نوجوان بلوچوں کو وہاں دہشتگردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ پھر سرکش اور باغی بلوچ سرداروں کو خرید کر یورپ اور امریکہ میں رکھا ہوا ہے جہاں انہیں ہر قسم کی سہولتیں اور عیاشیاں میسر ہیں۔ بھارتی پیسہ وافر مقدار میں مہیا ہے اور بھارتی پاسپورٹ پر وہ دنیا جہاں کا سفر کرتے ہیں ۔یہ لوگ مکمل طور پر ’’ را‘‘ کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔ یہ لوگ چونکہ علاقے کے سردار ہیں اس لئے بہت با اثر ہیں ۔یاد رہے کہ بلوچستان میں سرداری نظام بہت مضبوط ہے۔ لوگ خدا کی قسم اٹھا کر تو حکم عدولی کر سکتے ہیں لیکن سردار کی قسم سے نہیں پھر سکتے۔ یہ سردار آزادی سے یورپ اور امریکہ میں سفر کرتے ہیں۔ وہاں کے سیاستدانوں اور با اثر حضرات سے ملتے ہیں حتیٰ کہ اقوام متحدہ تک ان کی رسائی ہے ۔یورپ میں بیٹھ کر یہ لوگ بلوچستان میں دہشتگردی پھیلاتے ہیں۔یہاں بلوچستان میں تقریباً اسوقت دو درجن شدت پسند د دہشتگرد بلوچ تنظیمیں کام کررہی ہیں جن کی ڈوریں ’’را‘‘ کے تحت کام کرنیوالے بلوچ سرداروں کے ہاتھ میں ہیں۔اندازاً 10سے12 ہزار ’’ را‘‘ کے ایجنٹ بلوچستان میں سرگرم ہیں۔’’ را‘‘ کے ایجنٹ ،بلوچ دہشتگرد تنظیمیں اور باہر بیٹھے ہوئے بلوچ سردار سب مل کر کام کرتے ہیں۔ روزمرہ کے حالات کے مطابق دہشتگردی کے منصوبے بنائے جاتے اور پھر ان پر عمل کیا جاتا ہے جیسا کہ چند ماہ پہلے پنجابی مزدوروں کو قتل کیا گیا۔ اس سے پہلے عید کے موقع پر پنجابی مسافروں کو بسوں سے اتار کر مارا گیا اور اب سانحہ مستونگ جہاں 22پشتون مار دئیے گئے۔ اس سے پہلے اور حال ہی میں ایک دفعہ پھر ہزارہ قبیلہ کے اہل تشیع نشانہ بنائے گئے ۔ مقصد یہ ہے کہ مختلف فرقوں اور قبائل میں نفرت اس حد تک پھیلا دی جائے کہ قومی یکجہتی کا عمل ختم ہوجائے۔ہر طرف خوف و ہراس پھیلا دیا جائے اور یہ لوگ اپنے مقصد میں اب تک کامیاب بھی ہیں ۔ان حالات سے اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت بلوچستان میں کتنی سرمایہ کاری کر چکا ہے ۔کس شدت سے اپنے پنجے گاڑ چکا ہے ۔یہاں یہ بات بھی ماننی پڑتی ہے کہ اسے موساد ، مغربی ایجنسیوں ، کئی ایک مغربی سیاستدانوں اور با اثر حضرات کی مدد بھی حاصل ہے۔
اب اگر اقتصادی راہداری بن جاتی ہے توبھارت کے سارے خواب چکنا چور ہو جائینگے اور’’ را‘‘ کا بلوچستان کو علیحٰدہ کر نے کا سارا منصوبہ دھڑام سے زمین بوس ہو جائیگا جس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جب سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع ہوگا تو چینی انجینئرز اور چینی لیبر یہاں کام کریگی۔ انکے ساتھ ہمارے انجینئرز اور لیبر بھی ہوگی۔ بلوچستان جیسے حالات میں یہ لوگ سیکورٹی کے بغیر کام نہیں کر سکتے۔ انہیں لازماً سیکورٹی بھی مہیا کی جائیگی۔اس مقصد کیلئے ایک آرمی ڈویژن کھڑا کیا جا رہا ہے جو اس سارے علاقے کی حفاظت کریگا۔ اس ڈویژن کیساتھ انٹلیجنس کے لوگ بھی موجود ہونگے جو دہشتگردوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں گے۔ دہشتگردوں کو کھل کر کاروائیوں کا موقع نہیں مل سکے گا اور یوں دہشتگردی پر کافی حد تک قابو پا لیا جائیگا۔دوسری وجہ یہ ہے کہ راہداری کے ساتھ کئی ایک صنعتی زون بھی قائم ہونگے جن سے ہماری انڈسٹری کو ’’بوسٹ‘‘ ملے گا۔ لاکھوں کی تعداد میں ملازمتیں ملیں گی۔10لاکھ ملازمتیں تو صرف گوادر پورٹ کے فنکشنل ہونے پر ملیں گی ۔ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے اور دہشتگردی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔اگر راہداری سے بے روزگاروں کو عام روزگار مل گیا تو علاقے میں خوشحالی آئیگی اوردہشتگردی کا کاروبار خود بخود ختم ہوجائیگا۔ جس دن یہ ختم ہوگیا اس دن بھارت کی بلوچستان کو علیحٰدہ کرنے کی تمامتر منصوبہ بندی خود بخود اپنے انجام کو پہنچ جائیگی۔لہٰذا یہی وجہ ہے کہ بھارت اس راہداری کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے جو انشا ء اللہ ناکام ہوگی۔