موسمیاتی تغیرات کا سفارتی دن
17 جون کو دُنیا بھر میں یورپین سفارتخانے موسمیاتی تغیرات کا سفارتی دن مناتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے
Framework Convention on Climate Change (COP21) کی اکیسویں کانفرنس جوکہ دسمبرمیں فرانس کے شہر پیرس میںہوگی ،سے چھ ماہ قبل ہم یورپی یونین کے نمائندوں اور پاکستان میںاس کے نمائندہ ممالک، تمام قومی اور بین الاقوامی شراکت داروں سے کہتے ہیں کہ وہ اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی تغیرات پر آرزومندانہ، جامع ، منصفانہ اورلاگو ہونے والے معاہدے کے لئے مل کر کام کریں۔
آئندہ نسلوں کے لئے ہماری دُنیا کو رہائش کے قابل رکھنے اور اس کے تحفظ کے لئے اس معاہدے کے دو مقاصد ہونے چاہئیں۔ اول اسے گلوبل وارمنگ کو زہریلی گیسوں کے اخراج کو محدود کرکے صنعتوں سے پہلے والے درجے سے کم ازکم 2 ڈگری سیلسیس ضرور کم ہونا چاہئے۔ دوئم، اسے موسمی انتشار سے لوگوں کے نقصان کو کم کرنے میں ضرور مددگار ہونا چاہئے۔ بین الاقوامی معاہداتی زبان کے مطابق پہلے والے کو تخفیف (Mitigation) اور دوسرے والے کو موافقت (Adaptation) کہتے ہیں۔
اگر ابھی کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو دُنیا بھر کے اربوں لوگوں کی زندگیوں پر بڑھتے درجہ حرارت، انتہائی موسمی حالات، سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح، ساحلی علاقوں میں سیلابوں کے خطرے، مزید قحط سالی، زمینی علاقوں میں سیلابوں، بھوک اور بیماریوں سے تباہ کن اثرات مرتب ہونگے۔ امن و امان کو لاحق خطرات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ یورپین یونین نے موسمیاتی تغیرات کے مسائل پر عالمی سطح پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 1990 سے 2012 کے درمیان ہم نے گرین ہاوٗس گیسز کے اخراج میں 19 فیصد کمی کی ہے۔ حال ہی میں ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم 2030 تک گرین ہاوٗس گیسزکو 40 فیصد تک کم کردیں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہم نے انرجی ایفیشنسی اور گرین اور قابلِ تجدید توانائی اور دُنیا کی پہلی کاربن مارکیٹ کے ضمن میں آرزومندانہ مقاصد کا تعین کیا ہے۔
پاکستان اب تک دُنیا میں سب سے کم فی کس زہریلی گیسوں کے اخراج والے ممالک میں شامل ہے۔یہ تجویز دینا کہ جوکچھ پیرس میں وقوع پذیرہوگا اس کا اسلام آباد سے تعلق نہیں ہے یہ غلط ہوگا۔ پاکستان پہلے سے ہی اُن ممالک میں شامل ہے جو مستقبل میں موسمیاتی تغیرات کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ اگر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کوئی مستحکم قدم نہ اُٹھایا گیا توپاکستان کے لوگ بھاری قیمت ادا کرنے کا خطرہ مول لیں گے ۔
اسی لئے ہم حکومتِ پاکستان کی ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور پیرس میں معاہدے کیلئے بین الاقوامی کوششوں میں لیڈرشپ کا مظاہرہ کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ موسمیاتی تغیرات کے ضمن میں پاکستان کی پالیسی پہلے ہی سے آرزومندانہ ہے جو اس نے 2012 میں اپنائی۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ اس ضمن میں ضرورت کیمطابق وسائل مختص کئے جائیں۔
یہاں پاکستان میں توانائی کا مسئلہ یقیناََ پہلے سے ہر شخص کے ذہن میں موجود ہے۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ عارضی حل کی ترغیب سے بچاوٗ اہم ہوگا، جو کہ عارضی طور پر توانائی کے خسارے کو حل کرتے ہوئے سستے سبز حل کی ترقی کو نقصان پہنچائے گا۔ پاکستان مثالی طور پر قابلِ تجدید توانائی کے لئے موزوں ملک ہے اور یہ حوصلہ افزاء بات ہے کہ پن بجلی، شمسی اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی پاکستان کی توانائی پالیسی کے اہم ستون ہیں۔ توانائی کی صلاحیت کو بہتر کرنا ایک اہم نقطہ ہے جس میں کا میابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک یہ بوجھ اپنے آپ کندھوں پر اٹھانے کے لئے تنہا نہیں چھوڑے جائیں گے۔ COP21 کانفرنس کا اہم مقصد 2020 سے ایک Green Climate Fund میں ترقی یافتہ ملکوں سے 100بلین ڈالر اکٹھا کرنا ہے۔ یہ ترقی پذیر ممالک کے لئے بہتر اور پائیدار ترقی کو فروغ دیتے ہوئے موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے کے لئے مدد دے گا۔ یورپین یونین اوراس کے ممبر ممالک ترقیاتی امداد میں پاکستان میں کاربن کم کرنے اور موسمیاتی تغیرات کے حوالے سے کوششوں میں بھی مدد دیں گے۔
کافی عرصے سے موسمیاتی عمل ایک موقع کی بجائے ایک خرچ کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ آج اس حوالے سے کوئی کاروائی نہ کرنے کے اخراجات پر مباحثہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں کوئی کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے ملائمیہ (Adaptation) میں 2050 تک 6 سے 14 بلین ڈالرز کے اخراجات ہوسکتے ہیں۔ تجزیہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ کم کاربن مستقبل کی اقتصادی کامیابی کی چابی اور خوشحالی کے لئے اہم ہے۔ پاکستان کو اِن حقیقتوںکے تحت اپنی معیشت اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہم تمام شراکت داروں ، کاروباری اداروں، مقامی حکومتوں اور سول سوسائٹی سے کہتے ہیں کہ وہ آرزومندانہ پالیسی بنانے اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے مطالبہ کریں۔
آج تقریباََ 40 ممالک، بشمول یورپین یونین کی 28 ممبر ریاستوں نے اپنی ـ" قومی حصہ داریـ" پیش کردی ہے۔ اور وہ ہیں۔ اُنکے وعدے گرین ہاوٗس گیسوں کے اِخراج میں کمی اور موسمیاتی تبدیلی کو اپنانا۔ ہم پاکستان پر اس مشترکہ کوشش میں شامل ہونے اور اکتوبر میں ڈیڈلائن سے پہلے اپنی شراکت پیش کرنے کے لئے اعتماد کرتے ہیں کہ وہ اپنے قومی حالات اور صلاحیتوں کی بنیاد پر آرزومندانہ ہو اور پیش قدمی کرے، اور ایک مثبت رفتار میں شرکت کرنے کیلئے جو کہ اس سنگین عالمی مسئلہ کو حل کرسکتا ہے۔
ہم موسمیاتی تبدیلی پر ناقابلِ واپسی نقطے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور دُنیا کو یقینی کاروائی کرنے کے لئے نیک نیتی سے ضرور آگے بڑھنا چاہئیے۔ لہذا ہمیں امید ہے کہ آپ پڑھنے والے اس اپیل پرتوجہ دیں گے اور موسمیاتی تبدیلی پر پیرس میں دسمبر میں ایک کامیاب عالمی معاہدہ پر پہنچنے کیلئے شعور کی ضرورت کو اُجاگر کریں گے۔