جمعۃ المبارک‘ 24؍ شعبان المعظم 1436ھ ‘ 12؍ جون 2015ء
بھائی چارے کے فروغ کیلئے بابری مسجد، کاشی اور متھرا کی مساجد مسلمان ہمیں دیدیں۔ سربراہ وشواہندو پریشد۔
درست فرمایا ہے اشوک سنگھل نے اب اسکے جواب میں مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی مشورہ دیں کہ بھیا اشوک سنگھل آپ بڑے بھائی ہیں آپ اپنے چھوٹے بھائیوں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑا پن دکھائیں اور خود ہی ان مساجد سے دستبرداری کا اعلان کر کے اپنے 22 کروڑ چھوٹے بھائیوں کے دل جیت لیں۔ وہ ہنسی خوشی سب کچھ بھول کر آپکو گلے لگا لیں گے۔یقین کریں ایسا کرنے سے بھارت میں امن شانتی اور بھائی چارے کا دور دورہ ہو گا اور ہر طرف سکھ چین ہو گا۔ کیا اتنا حوصلہ ہے آپ میں۔ ہر بار صرف چھوٹے بھائی مسلمان ہی کو کیوں قربانی کا بکرا یا بلی چڑھانے کا بیل بنایا جاتا ہے۔ قربانی ہمیشہ بڑے دیا کرتے ہیں۔ویسے بھی ہندوستان پر یورپ کے قبضہ سے قبل اسی چھوٹے بھائی کی حکومت تھی اور اسکے دور میں بڑا بھائی آرام و سکون کی نیند سوتا تھا اس کا مال و متاع عزت و حرمت سب کچھ محفوظ تھا۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اب قربانی دینے کی باری بڑے بھائی کی ہے اس ابتلا کے دور میں جب گھر کی حکمرانی اسکے پاس آ گئی ہے۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو اذیت نہ دے اسکے مال و متاع عزت و آبرو کا اتنا ہی خیال رکھے جتنا چھوٹے نے اس کا رکھا تھا۔کاشی اور متھرا ہندو دھرم کے مقامات مقدسہ ہیں۔ یہاں صدیوں سے ہزاروں مندر موجود ہیں اور ایک ڈیڑھ صدی سے چند ایک مساجد بھی ان شہروں میں آباد مسلمانوں کے مذہبی فریضہ کی ادائیگی کیلئے موجود ہیں جن سے کسی کو کوئی نقصان نہیں۔ یہ مسلمان اور مساجد باہر سے نہیں آئیں انہوں نے اسی دھرتی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ ان پر یہ دھرتی تنگ نہ کی جائے ورنہ یہ چھوٹے بھائی بھی کہیں اپنے پہلے والے چھوٹے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے لئے بھی ایک علیحدہ گھر کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں جہاں وہ بڑے بھائی کی زیادتیوں سے محفوظ ہوں۔لہذا اشوک سنگھل ایسے معصومانہ مشورے اپنے پاس ہی رکھیں تو بہتر ہیں۔
…٭…٭…٭…٭…
وزیر اعظم پیسے دینے کا کہتے ہیں مگر دیتے نہیں، وزیر اعلیٰ سندھ
تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے ہیروں کی کان تو آصف زرداری صاحب کی شکل میں پیپلز پارٹی کے پاس موجود ہے۔ سندھ حکومت کو پھر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ اسکے علاوہ بھی سونے کی بے شمار دکانیں وزیروں، وڈیروں اور شاہوں کی صورت میں بھی وہاں پائی جاتی ہیں۔ اتنا زرخیز صوبہ ہونے پر بھی وہاں روپے پیسے کی قلت کیوں۔
خود وزیر اعلیٰ سندھ سرکار اگر نیساں کا شکار نہیں ہیں تو وہ ہم سے زیادہ ان سونے اور ہیروں کی کانوں کے بارے میں جانتے ہیں جہاں زرو جواہرات روپیہ اور پیسہ لبالب بھرا ہے۔ سچ پوچھئے تو چھلک رہا ہے۔ اگر سندھ حکومت کو صوبہ چلانے میں امداد یا رقم کی ضرورت ہے تو وہ مربیوں سے ہی رقم طلب کرے یا وصول کرے اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ یہ تمام رقم انہوں نے اسی صوبے اس ملک یہاں کے عوام سے ہی غضب کی ہے۔ ورنہ ان میں سے کون جدی پشتی رئیس تھا۔ اگر یہ ان پیسوں سے چند ارب روپے سندھ کے عوام پر خرچ بھی کرینگے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑیگی۔دکھ کی بات یہی ہے کہ ہمارے حکمران خواہ کوئی بھی کیوں نہ ہوں۔ صرف لوٹنا جانتے ہیں لوٹانا نہیں۔ دیہی سندھ ہو یا اربن سندھ کھربوں اربوں روپے کی زمینیں جائیدادیں، فیکٹریاں، ملیں، کارخانے لگانے والے اور سالانہ اربوں روپے کے ٹیکس چوری کرنیوالے یہ ’’ان داتا‘‘ کیا اپنے صوبے اور یہاں کے عوام کی ذرا سی بھی خدمت یا مدد نہیں کر سکتے۔رہی وفاقی حکومت کی بات تو وزیر اعظم میاں نواز شریف تو ویسے ہی لکھ لٹ قسم کے دیالو ہیں۔ انہیں کیا ہوا کہ سندھ کے مظلوم وزیر اعلیٰ کی فریاد پر ان کا دل نہیں پسیجا۔ اب تو گلگت بلتستان بھی ہمارا صوبہ بن چکا اس لئے پانچوں صوبوں کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔
…٭…٭…٭…٭…
سمندری طوفان ’’اشوبھا‘‘ کا رخ عمان کیطرف ہو گیا
اہل پاکستان اور خاص طور پر کراچی کے باسی تو بہت پریشان تھے۔ اس طوفان سے کیونکہ دیگر ممالک میں جو سمندر کے کنارے شہر ہیں وہاں بچائو کے انتظامات ہوتے ہیں۔ مگر کراچی تو پورے پاکستان کی طرح صرف اور صرف اللہ کے بھروسے پر ہی اس آفت سے نمٹنے کیلئے پرعزم تھا۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس آفات ارضی و سمادی سے ملک محفوظ رکھنے کیلئے کوئی پروگرام نہیں ہے۔ وہ تو بڑے بھولے پن میں کہہ دیتے ہیں کہ ’’بس جی یہ تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ہم کیا کر سکتے ہیں‘‘ یا پھر زیادہ سے زیادہ مرنے والوں کیلئے دعائے مغفرت کرتے نظر آتے ہیں۔سری لنکا والوں نے نجانے کیا سوچ کر اس کا نام اشوبھا رکھا۔ مگر یہ نام ہم پاکستانیوں کیلئے ’’شبھ‘‘ ثابت ہوا اور اس کارخ کراچی سے بدل کر عمان کی طرف ہو گیا۔اس سے پہلے سمندری طوفان کا نام ’’نیلوفر‘‘ پاکستان نے تجویز کیا تھا اور اس سے قبل کے سمندری طوفان کا نام عمان نے ’’ہد ہد‘‘ تجویز کیا تھا۔ سمندری طوفان کے نام طوفان سے منسلک علاقے کے ممالک رکھتے ہیں۔ یہ سمندری طوفان کبھی تو رم جھم برسا کہ کبھی چھتیں اڑا کر اٹھکیلیاں کرتے گزر جاتے ہیں اور کبھی ’’قطرینہ‘‘ اور کبھی ’’سونامی‘‘ بن کر بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیتے ہیں یوں یہ طوفان اپنے علاقوں میں کبھی اپنے منفرد ناموں کی وجہ سے اور کبھی تباہی و بربادی کی وجہ سے یادگار بن جاتے ہیں۔ان سمندری طوفانوں کا اگر پاکستان پر کوئی اچھا اثر پڑتا ہے تو وہ صرف تھر کے صحرا میں پڑتا ہے۔ جہاں اس طوفان کی وجہ سے آنیوالے بادل گرجتے بھی ہیں اور برستے بھی ہیں یوں اس پیاسی دھرتی کو چند بوندیں پانی کی میسر آ جاتی ہیں۔ ورنہ یہاں برسوں بھولے بھٹکے سے بھی کوئی بادل نہیں آتا۔ اب اس ’’اشوبھا‘‘ کی بدولت ایک بار پھر تھر میں چند بوندیں کیا برسیں وہاں کے لوگوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ شاید یہ تو اب دعا کرینگے کہ خدا کرے اشوبھا پھر لوٹ کر یہاں آئے اور اس پیاسے صحرا میں جل تھل کر دے۔
…٭…٭…٭…٭…