پنجاب میں سزائے موت کے 5 ہزار 5 سو سے زائد قیدی، سزا کیلئے صرف ایک جلاد
لاہور (میاں علی افضل سے) وفاقی حکومت کے احکامات کے باوجود پنجاب میں سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسیوں کی سزا انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ احکامات کے 5 ماہ بعد بھی صرف چند سو افراد کو پھانسی کی سزا دی جا سکی۔ اب بھی 5 ہزار 5 سو سے زائد سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔ قانونی پیچیدگیاں پھانسیوں پر عملدرآمد میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ محکمہ جیل خانہ جات کے پاس سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی کی سزا دینے کے لئے صرف ایک جلاد صابر مسیح موجود ہے۔ اسی رفتار سے پھانسیوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھانسی کی سزا دینے کا عمل 5 سال سے زائد عرصہ میں مکمل ہو گا۔ پنجاب کی 26 جیلوں میں سزائے موت کے 5 ہزار 9 سو 89 خطرناک قیدی موجود تھے ان میں 36 خواتین شامل ہیں۔ ان میں سے سنٹرل جیل لاہور میں سزائے موت کے 526 مرد، 8 خواتین سنٹرل جیل گوجرانوالہ میں 418 مرد، 5 خواتین سنٹرل جیل ساہیوال میں 506 مرد، 2 خواتین، ڈسٹرکٹ جیل قصور میں 235، ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں 2، ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ میں 241، ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ میں 277 مرد، 6 خواتین سنٹرل جیل راولپنڈی میں 401، ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں 166، ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں 175، ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں 221، ڈسٹرکٹ جیل منڈی بہاءالدین میں 114، سنٹرل جیل فیصل آباد میں 458، سنٹرل جیل میانوالی میں 243 مرد، 4 خواتین ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میں 6 مرد ایک خاتون قیدی، ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں 262 مرد 5 خواتین، ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا میں 213 ڈسٹرکٹ شاہ پور میں 116، ڈسٹرکٹ جیل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 137، سنٹرل جیل ملتان میں 398، سنٹرل جیل بہاولپور میں 330، ڈی جی خان میں 242، ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں 36، رحیم یار خان میں 108، وہاڑی میں 158، ملتان جیل میں 5 خواتین قیدی ہیں۔ لاہور ریجن کی جیلوں میں خطرناک قیدیوں کی تعداد 2 ہزار 2 سو راولپنڈی ریجن کی جیلوں میں ایک ہزار 77، فیصل آباد ریجن کی جیلوں میں ایک ہزار 4 سو 53، ملتان ریجن کی جیلوں میں ایک ہزار 2 سو 72 ہو گئی ہے۔ ان میں سے صرف چند سو سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی کی سزا دی جا سکی ہے۔
پھانسیاں