آپریشن ضرب عضب… فتح مبیں کا ایک سال
آپریشن ضرب عضب کو ایک سال ہو گیا ہے۔ اس کی کامیابیوں کو اندرون ملک وسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے۔ بیرون ملک بھی اس کی تعریف ہو رہی ہے۔ بہت لوگ حیران ہیں اور کچھ لوگ پریشان بھی ہیں۔ جو حیران کرنا جانتا ہو وہ پریشان کرنا بھی جانتا ہے۔ اس کے لئے سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف کی مستحکم شخصیت دلیری ثابت قدمی اور حب الوطنی کو بہت سراہا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آخری دہشت گرد تک آپریشن ضرب عضب جاری رہے گا۔ اب تک ان کے ٹھکانوں پر ضرب کاری لگ چکی ہے۔ ملک کے اندر ان کے سہولت کاروں اور ملک دشمن لوگوں پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ مکمل صفائی ہو رہی ہے بلکہ ان کا صفا ہو رہا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ’’دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی قربانیوں اور کامیابیوں سے ملک ترقی کر رہا ہے۔ نواز شریف کی یہ بات قابل غور ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ معاشی ترقی اور زبردست منصوبہ بندی سے ملک ترقی کرتے ہیں مگر جب تک امن و امان کی صورت حال آسودہ نہ ہو جائے تو ترقی صرف خواب رہ جاتی ہے۔ نواز شریف نے فوج کو مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے خوبصورت جملہ کہا ہے کہ پرخطر محاذ پر لڑنے والے اپنا آج قوم کے مستقبل پر قربان کر رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اہم اہداف حاصل ہو چکے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کا ایک برس فتح کا سال ہے۔ خواجہ صاحب کے پہلے دنوں سے بیانات کے مقابلے میں یہ بیانات حوصلہ افزا ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ نجانے کیا کہیں گے؟ آرمی چیف کے ساتھ وزیراعظم کی مسلسل ملاقاتیں کوئی رنگ لائیں گی۔ اس بات سے مسلسل یہ جملہ عجیب سا لگتا ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ اس پیج پر اتنا لکھا جا چکا ہے اور اتنا پڑھا جا چکا ہے کہ یہ فرسودہ ہو گیا ہے۔ اب ضرورت کسی اگلے ورقے (پیج) کی ہے۔
تو اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
لگتا ہے کہ کسی نے کتاب عشق تو کھول کے دیکھی ہی نہیں ہے۔ ہمیں بے عشق حکمرانوں نے مارا ہے۔
عشق نہیں تو زندگی راکھ کا ایک ڈھیر ہے
عشق جنون کو کہتے ہیں۔ یہ عمران خان والا جنون نہیں ہے۔ اس حوالے سے عمران مسلم لیگ (ن) کی بات کرتا ہے۔ نون اور جنون؟ مگر اکنامک کاریڈور اور چین سے روابط کے لئے نواز شریف ہمیں اچھا لگتا ہے۔ مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ وہ اچھا کر رہے ہیں کہ جنرل راحیل سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ اللہ مہربانی کرے گا۔
یہ بھی کامیابی کی دلیل ہے کہ بھارت کے حکمرانوں کو تکلیف ہونے لگ گئی ہے۔ ورنہ جس قدر فضول بیانات کے پھوکے فائر وہ کر رہے ہیں وہ بڑھکیں مار رہے ہیں۔ ایک پاکستانی کبوتر سے ڈرنے والے دشمن کا مقابلہ کرنا کتنا مشکل ہے۔ برادرم کرنل ضرار کہتے ہیں کہ دشمن بھی کوئی باوقار ہونا چاہیے تاکہ مقابلے کا کوئی مزا آ سکے۔
لوگ کہتے ہیں کہ بھارتی بڑبولوں کا جواب جنرل راحیل شریف دیتے ہیں۔ فارمیشن کمانڈرز کی کانفرنس میں جنرل صاحب نے کہا کہ ہم کسی بھی ہار جیت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ جارحیت پاکستان کے خلاف بھارت کر ہی نہیں سکتا۔ اس موقع پر جنرل راحیل سری لنکا گئے تو یہ ایک پیغام بھارت کے لئے تھا۔ سری لنکا میں دہشت گردی اور بغاوت کو پاک فوج نے سری لنکا کو کچلنے میں مدد دی تھی۔ بھارت وہاں بھی دہشت گردوں اور باغیوں کی مدد کر رہا تھا تو اس کی سازشیں پاکستان میں کس طرح چلیں گی۔ میں پھر اپنی یہ بات دہراتا ہوں کہ بھارت دنیا میں کسی ملک سے ڈرتا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے۔ چین سے بھی اتنا نہیں ڈرتا جتنا ہم سے ڈرتا ہے۔ چین سے بھی ڈرتا ہے کہ وہ پاکستان کا ہمسایہ ہے، دوست ہے، بھارت کو یہ فکر تھا کھائے جارہی ہے کہ ہمسایہ دوست بھی ہو سکتا ہے۔ بھارت کے لئے نہ دوست ملک نہ دشمن ملک کا لفظ سفارتی لحاظ سے استعمال ہو سکتا ہے۔ وہ صرف ہمسایہ ملک ہے۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ وہ دشمن ملک ہے۔
حکمرانوں میں سب سے زیادہ مزا وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کے بیان کا آیا ہے۔ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے کہ پاکستان نہ برما سے اور نہ مالدیپ ہے۔ پاکستان ترقی کے راستے پر ہے تو بھارت کو کیوں تکلیف ہے۔ وہ کشمیری حریت پسندوں کا آج تک مقابلہ نہیں کر سکا۔ ہم ایٹمی ملک ہیں۔ اس کی یاد دہانی چودھری نثار ہی کر سکتے ہیں۔ ایٹم بم سے ہمیں بھی نقصان ہو گا مگر ہندو دنیا کے نقشے سے مٹ جائیں گے۔ مسلمانوں کے تو پچاس ملک اور بھی ہیں۔ مسلمان رہیں گے۔ مگر ہندو نہیں ہوں گے۔
وزیراعظم مودی کا جواب وزیراعظم نواز شریف نے دیا ہے۔ مگر میرے پسندیدہ کالم ایاز امیر کو اس کی تکلیف ہے۔ یہ لوگ کیا ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں ایٹمی دھماکے نہیں کرنا چاہئیں تھے۔ یہ کبھی نہیں کہتے کہ بھارت کو ایٹمی دھماکہ نہیں کرنا چاہئے تھے۔ بھارت جانتا ہے کہ ہم ایک ایٹمی ملک ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی کمزوریوں کے باوجود وہ جارحیت کی جرات نہیں کر سکتا۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ایک ہے اور بھارت سے تو یقیناً بہتر فوج ہے۔ ہماری میزائل ٹیکنالوجی بھی اس سے اچھی ہے۔ بھارت میزائل کے تجربے کرتا رہے مگر ہم نہ کریں یہ کیا پالیسی ہے۔ غربت کے بہانے سے نجانے کیا کہنا چاہتے ہیں۔ وہ اسلحے کے انبار لگائے اور اس کے لوگ ذلت اور اذیت میں رہیں۔ ہم بھی ذلت اور اذیت میں ہیں مگر؟ ایاز امیر کو معلوم ہے کہ امریکہ اور بھارت کی پالیسی کیا ہے۔ وہاں غربت زیادہ ہے مگر؟
میں تو چاہتا ہوں کہ بھارتی وزیر اطلاعات کے جواب میں ہمارے وزیر اطلاعات پرویز رشید کو بات کرنا چاہئے۔ لوگ حیران ہیں کہ سابق صدر مشرف اور ’’صدر‘‘ زرداری نے بھی بھارت کو للکارا ہے۔ جب وہ واقعی صدر تھے تو انہوں نے کیا کہا تھا؟ ہمارے سیاستدان کچھ اور کہتے ہیں۔ حکمران بنتے ہیں تو کچھ اور کہتے ہیں۔ کیا اچھی بات جنرل راحیل نے کہی ہے کہ اندرونی تنازعات کا شکار ہو کر ریاستیں تنہا ہو جاتی ہیں۔ اس کے اثرات فوج پر بھی پڑتے ہیں۔ کیا اس پر ہمارے سیاستدان اور حکمران غور کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس پر APC کیوں نہیں بلائی جاتی؟ بھارت بھی خلفشار میں ہے۔ وہاں 324 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ بھارت صرف پاکستان دشمنی کی آڑ میں اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارا کوئی دانشور ان خطوط پر سوچنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انہیں بھارت میں سب کچھ ٹھیک نظر آتا ہے۔ جو باتیں پاکستان کے اندر پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہیں۔ وہی باتیں بھارت میں بھارت کی حمایت میں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ تضاد ختم ہونا چاہئے۔ اس تضاد سے فساد پھیلتا ہے اور پاکستان کے اندر پاکستان دشمن تنظیمیں اور لوگ اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔