فوجی عدالتیں: پارلیمنٹ میں منظوری سے قبل صدر نے دستخط کئے ہیں تو پھر بازی الٹ چکی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد(آن لائن/ آئی این پی/ نیٹ نیوز/ صباح نیوز) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر آرمی ایکٹ کو آئینی تحفظ نہیں ہے تو پھر سب کچھ بیکار ہے۔ اگر فوجی عدالتوں کے قیام کی پارلیمنٹ میں منظوری سے قبل ہی صدر نے دستخط کئے ہیں تو اس کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہوگی کیونکہ یہ قانون کے خلاف ہے، صدر پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد دستخط کرتا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر بازی ہی الٹ گئی ہے۔ صدر پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد دستخط کرتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا پارلیمانی جمہوریت پارٹی سربراہ کی جمہوریت میں تبدیل ہوگئی ہے، اصل اقتدار اعلیٰ اب پارٹی قیادت کے پاس ہے جو پارلیمنٹ اور ملک سے باہر بیٹھ کر پارٹی کا انتظام چلاتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے دلائل میں کہا کہ عدالت عظمیٰ فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار رکھتی ہے، اگر مجھے دہشتگرد قرار دے دیا جائے توکیا میں انصاف کیلئے سپریم کورٹ آسکتی ہوں۔ پارلیمنٹ کے ارکان اسے بنیادی حقوق پر قدغن قرار دیتے تھے، لیکن ایک ٹویٹ کے بعد پارلیمنٹ نے اسے منظور کرلیا، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ کل ایک پوائنٹ اٹھایا گیا تھا کہ پارٹی قیادت کی وجہ سے ہوا، کیا ایسا ہی ہے تو عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ فورسز کے بالواسطہ اور بلاواسطہ دبائو کی وجہ سے ترمیم منظور کی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کی تمام بار ایسوسی ایشنز نے کہا ہے کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل فیئر نہیں ہوتا۔ ہم اسکے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ آپ کے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ تمام بار ایسوسی ایشنز اس کے خلاف ہیں تو عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہاں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یحییٰ خان کے دور میں کوئی قانون نہیں تھا اب یہاں ویکیوم نہیں۔ قراداد مقاصد نے عوام کو تقسیم کیا ہے، اگر کوئی تاریخ انفرادی طور پر لکھے تو تبدیل ہوسکتی ہے لیکن اجتماعی طور پر ایسا ممکن نہیں، محمود اچکزئی اور وکلاء محاذ نے عدالت میں بنیادی ڈھانچے پر بحث کی ہے لیکن ابھی تک طے نہیں ہوسکا۔ عدالت نے کہا کہ جب آئین بنایا گیا تھا تو آئین بنانے والے پوری طرح آزاد تھے، 1973ء میں پہلی مرتبہ اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیا گیا عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ مشرقی پاکستان کے عوام کو بھی ایک قرارداد نے تقسیم کیا تھا،کیا ایسی دستاویز پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے جن پر اس وقت اتفاق نہیں تھا جس پر ثاقب نثار نے کہا کہ آپ نہ صرف ڈھانچے کو بنیاد بنا رہی ہے بلکہ اس پر تنقید کر رہی ہیں، اگر بنیادی ڈھانچہ ہٹا دیا جائے تو اسکا اختتام کہاں کرینگے، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اس صورت میں وہ وقت جلد آرہا ہے کہ جب ترامیم پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ کرے گی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ 184آرٹیکل کو بنیاد بنا کر عتیقہ اوڈھو جیسے مقدمات پر سوؤموٹو لیتے رہے ہیں تو ان ترامیم پر بھی سوئو موٹو کیوں نہیں لے سکتے، عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اگر عدلیہ نے پارلیمنٹ کو تابع کرلیا تو خطرناک ہوگا۔ جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بھارت کا آئین غیر متعلقہ چیز ہے اسے کیوں ڈسکس کیا جارہا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کہا کہ آپ اکیسویں ترمیم کو چیلنج نہ کریں ،عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہاکہ اس آئینی ترمیم کو ختم کیا جائے، لیکن اسے ختم کیا جائے جو فوجی عدالتوں کو تحفظ دیتی ہیں۔ ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کہہ رہی ہیں کہ آرٹیکل 8کے تحت اس ترمیم کو تحفظ دیا جو اس دن پیش ہوئی، عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ دوتہائی اکثریت ضروری ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ایک ہی مقدمہ میں کچھ لوگوں کو سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے کچھ کو نہیں، ایک ماں نے مجھ سے کہا میں عدالت سے سوال کرتی ہوں کہ اگر فوجی عدالتیں مجھے دہشتگرد قرار دیتی ہیں تو کیا مجھے یہاں نظرثانی کیلئے موقع دیا جائے گا، اس عدالت سے عوام کی امیدیں ہیں کہ وہ لوگوں کو بنیادی حقوق دلائے گی۔ جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کون فیصلہ کرے گا کہ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور کون فیصلہ کرے گا کہ اس نوعیت کی خلاف ورزی ہے کہ سپریم کورٹ ایکشن لے۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ فوجی عدالتیں منظم طریقے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرینگی کوئی قانون بنا تو اس کے بعد آپ آئیں گے، تو جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اس قانون سے بڑے پیمانے پر تحفظات ہیں اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے،کیا ہم پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار دے دیں،ہم نے انسانی حقوق کے خلاف بات کرنے والوں کی سرزنش بھی کرتے ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ملٹری کورٹس سے خیر کی توقع نہیں،آئینی ہو چکی ہیں تو آرمی کورٹس کو بھی فیئر ٹرائل دینا ہوگا، یہ دو سال کیلئے بنائی گئی ہیں۔آصف کھوسہ نے کہا کہ یہ ملٹری ایکٹ کے تحت بنائی گئی ہیں،آئین میںانکو بنیادی آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے،اب آپ کیا چاہتی ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عدالت عظمی ہمیں تحفظ دے ورنہ ہم پارلیمنٹ کے سامنے جائیں گے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو دلائل دینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔بی بی سی کے مطابق عاصمہ جہانگیر نے کہا فوجی عدالتوں کے قیام تے متعلق فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کی ٹویٹ کے بعد ارکان پارلیمانی نے 21 ویں آئینی ترمیم سے متعلق قانون سازی میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔ اس پر بنچ میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت کو پارٹی سربراہوں کی جمہوریت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63 کے کے تحت پارٹی سربراہ بہت زیادہ خود مختار ہو گئے ہیں۔ اس آرٹیکل کے تحت پارلیمنٹ کو اپنے پارٹی کے سربراہوں کی ہدایت ماننے ک پابند بنایا گیا ہے اور پارٹی سربراہوں کو بااختیار بنانے کی وجہ سے پارلیمانی جمہوریت متاثر ہوئی ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کے پاس بڑا آسان راستہ موجود ہے کہ اگر وہ پارٹی سربراہ کی ہدایت سے اتفاق نہیں کرتے تو مستعفی ہو جائیں اور ایسا کرنے سے دو تہائی اکثریت نہیں رہے گی اور نیا الیکشن کرانا پڑے گا۔