• news

اخراجات کنٹرول کرنے تک حالات بہتر نہیں ہونگے ، بجٹ تجاویز کو ٹوکری میں نہ پھینکا جائے: پنجاب اسمبلی میں بحث

لاہور (خصوصی رپورٹرر+خبرنگار+خصوصی نامہ نگار+کامرس رپورٹر+نیوزرپورٹر) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر جاری بحث میں ارکان اسمبلی کا کہنا تھا پنجاب میں تیل بھی نکل آئے لیکن جب تک اخراجات کو کنٹرول نہیں کیا جائے گا کبھی بہتری نہیں آئے گی، بجٹ تجاویز کو کوڑے کی ٹوکری میں نہ پھینکا جائے۔ اپوزیشن تنقید برائے تنقید کی بجائے مثبت تجاویز دے حکومت انہیں زیر غور لائے گی، اگر انعامی سکیموں کے ذریعے ہی ٹیکس اکٹھا کرنا ہے تو پھر بڑے بڑے ادارے بنانے کی کیا ضرورت ہے، جب تک بلاتفریق ٹیکس وصولی کا نظام نہیں لایا جائے گا ہم کسی سے ٹیکس نہیں مانگ سکتے۔ پنجاب اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عام بحث کا سلسلہ مسلسل چوتھے روز بھی جاری رہا۔ اجلاس سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال کی زیر صدارت مقررہ وقت دس بجے کی بجائے 50منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ تحریک انصاف کے ڈاکٹر مراد راس نے بجٹ بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا اپوزیشن ارکان بھی جیت کر ایوان میں آئے ہیں لیکن انہیں ترقیاتی فنڈز میں یکسر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ میں نے اپنے حلقے میں فنڈ ریزنگ کرکے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے دس فلٹریشن پلانٹس لگائے۔ اپنی مدد آپ کے تحت سکول تعمیرکرایا لیکن حکومت اس سکول کو لینے کے لئے تیار نہیں۔ حکومت لاء اینڈ آرڈر کی بہتری کی بات کرتی ہے لیکن گلبرگ میں تھانہ نصیر آباد جوتوں کی فیکٹری میں قائم ہے۔ ڈاکٹر نجمہ اختر نے کہا کسی انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم نے صرف لاہور میں آکر کھیلنے کو ترجیح دی یہ پنجاب حکومت کے لئے گڈ گورننس کا سرٹیفکیٹ ہے۔ انہوں نے کہا آبادی کی روک تھام کے لئے ایک بڑی مہم چلانے کی ضرورت ہے، اس کے لئے یوسی کی سطح پر ورکنگ پالیسی بنائی جائے اور کارکردگی کومانیٹر کیا جائے۔ ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا بجٹ بنا دینا نہیں بلکہ اس کا درست استعمال کمال ہوتا ہے۔رواں مالی سال میں حکومت کی طرف سے مختص کردہ پچاس فیصد بجٹ ضائع ہو گیا۔ کوئلے سے بجلی کی پیداوار پوری دنیا میں ختم ہو تی جارہی ہے ۔ کوئلے کے پاور پلانٹس صحت اور ماحولیات کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں بلکہ یہ نیو کلیئر پلانٹ سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اس سے قریب واقع پانی کے ذخائر زہرآلود ہو جاتے ہیں۔ وی آئی پی کی سکیورٹی کی غرض سے کتوں اور جیمبرز پر تو کروڑوں خرچ ہو سکتے ہیں لیکن ریسکیو 1122کی ایمبولینسز کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کیلئے اخبارات میں اشتہارات دینا پڑتے ہیں۔ شیخ خرم شہزاد نے کہا کہ پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور انہیں گاڑیاں مہیا کی جائیں۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم از 15سے 20فیصد اضافہ کیا جائے۔ وزیر خزانہ سے مطالبہ ہے کہ وہ 13ہزار میں غریب کے گھر کا بجٹ بنا کر دکھا دیں۔ شیخ علائو الدین نے کہا کہ پروفیسرز کی ایک دن کی آمدن لاکھوں میں ہے لیکن پنجاب ریونیو اتھارٹی نے انہیں رجسٹرڈ نہیں کیا۔ جہاں سے ٹیکس وصول ہو سکتا ہے وہاں سے کیوں وصول نہیں کیا جاتا۔ ٹیکنیکل اور فنانشل بڈ میں بد انتظامی کی جاتی ہے اور اس کی کمیٹیوں میں کرپٹ ترین لوگ بیٹھے ہیں۔ ہرطرح کے آلات سے لیس موبائل ہسپتال ڈیڑھ میں بن سکتا ہے لیکن چھ ‘ چھ کروڑ کی بڈ کیوں آرہی ہے۔ پنجاب میں تیل بھی نکل آئے لیکن جب تک اخراجات کو کنٹرول نہیں کیا جائے گا حالات میں کبھی بہتری نہیں آسکتی۔ میڈیکل کالجز بنائے جارہے ہیں لیکن فیکلٹی دستیاب نہیں۔ پنجاب میں 70لاکھ افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ ملک میں گندم کے 26لاکھ ٹن کے ذخائر موجود ہیں پھر کس طرح یوکرائن سے 7لاکھ ٹن گندم آ گئی۔ پاکستان میں ایک نہیں کئی ایان علی ہیں جو ملک سے غیر قانونی طریقے سے پیسہ باہر لے جارہی ہیں۔ ہم کیوں معاملات کو سمت نہیں دیتے کیونکہ آئی ایم ایف منع کرتا ہے۔ ڈاکٹر صلاح الدین نے کہا آئندہ مالی سال کا بجٹ غریب دوست نہیں۔ تنخواہوں میں ساڑھے فیصد اضافہ مذاق ہے ۔ سیاسی تجربہ کار حکومت غریب شخص محمد رفیق کا بجٹ پیش نہیں کر سکی ۔ قانون سازی کی جائے اور ہر ماہ بجٹ کے استعمال کا پوچھا جانا چاہیے۔ خدیجہ عمر نے کہا کہ حکومت کو دی جانے والی بجٹ تجاویز کو کوڑے کی ٹوکری میں نہ پھینکا جائے ۔ اگلے تین سال کا لائحہ عمل دینے کی بجائے گزشتہ سات سالوں کی ناکامیوں پر روشنی ڈالنی چاہیے تھی۔ وزیر اعلیٰ کے لئے ہیلی کاپٹر تبدیل ہو سکتا ہے، نئی گاڑیاں خریدی جا سکتی ہے، بیورو کریسی کے لئے گاڑیاں آ سکتی ہیں پھر ریسکیو 1122کے لئے کیوں گاڑیاں نہیں خریدی جا سکتیں۔ چودھری علی اصغر منڈا نے کہا پنجاب کے ایک ایک باسی کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے گا۔ حکومت کو تجویز ہے کہ سستے ٹریکٹر کی طرح سولر ٹیوب ویل بھی دئیے جائیں۔ احسن ریاض فتیانہ نے کہا کہ رواں مالی سال کے لئے ٹیکس کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکااور حکومت نے آئندہ مالی سال کے لئے ٹیکس میں مزید چار ارب روپے کمی کر دی ہے۔ میاں مرغوب نے کہا پنجاب حکومت نے عوام دوست‘ متوازن اور ترقیاتی بجٹ پیش کیا۔ اپوزیشن خوف کا شکار ہے کہ اگر یہ منصوبے مکمل ہو گئے توان کا کہیں نام و نشان بھی نہی رہے گا۔ حکومت سے مطالبہ ہے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے۔ نگہت شیخ نے کہا کہ ہماری خواتین سلائی مشینوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں حکومت بنگلہ دیش کی طرز پر خواتین کو سٹیچنگ سنٹرز بنا کر دے۔ سائرہ افتخار نے کہا حکومت انرجی بحران سے نمٹنے پر توجہ دے رہی ہے اسی طرح غذائی قلت سے بھی نمٹنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ سید مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہا پاک چین اکنامک کوریڈو منصوبہ ہمارے پاس سنہری موقع ہے۔ دیہی روڈز پروگرام کو ریجنل حب اور اکنامک جنریشن کو مد نظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا جائے۔ بجٹ میں دیگر ارکان نے بھی حصہ لیا جس کے بعد اجلاس آج جمعہ صبح نو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیاگیا۔ آج وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا بجٹ پر عام بحث کو سمیٹیں گی جس کے بعد بجٹ منظوری کا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔

ای پیپر-دی نیشن