سندھ: کرپشن پر گرفتار4 افسر14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے: وزیر بہبود آبادی علی مردان، پیر مظہر نے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی
کراچی (بی بی سی+وقائع نگار) قومی احتساب بیورو نے گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران کراچی میں مبینہ بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے چار گرفتار صوبائی افسروں کا چودہ روز کا ریمانڈ حاصل کر لیا جبکہ ایک صوبائی وزیر سمیت کئی اہم حکومتی اہلکاروں نے قبل از گرفتاری ضمانتیں حاصل کرلی ہیں۔ نیشنل ایکش پلان کے تحت کراچی میں جاری دہشت گردوں کے خلاف رینجرز کے آپریشن کے دائرے کو بظاہر صوبائی حکومت کی سطح پر مبینہ بدعنوانیوں تک وسیع کر دیا گیا۔ قومی احتساب بیورو نے موجودہ صوبائی وزیر علی مردان شاہ، سابق وزیر تعلیم پیر مظہرالحق، سیکرٹری اطلاعات ذوالفقار شاہوانی اور ڈائریکٹر منصور راجپوت پر بھی بدعنوانی کے الزامات عائد کئے ہیں، جنہوں نے عدالتوں سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی۔ رینجرز کے ترجمان کی طرف 12 جون کو ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل رینجرز نے ایپکس کمیٹی کو بتایا ہے صوبے میں مبینہ طور پر سالانہ 230 ارب روپے کی کرپشن کی جا رہی ہے۔ قومی احتساب بیورو نے جمعرات کو سجاول کے ٹاؤن افسر ممتاز زرداری، سہون شریف کے تین ٹاؤن افسروں ظہور احمد شہانی، رحمت اللہ میمن اور انجینئر ادریس میمن کو گرفتار کیا تھا۔ ممتاز زرداری پر دس کروڑ جبکہ سہون شریف ٹاؤن کمیٹی پر دس کروڑ 20 لاکھ روپے کی بدعنوانی کا الزام ہے۔ احتساب بیورو نے گزشتہ روز چاروں ملزمان کو نیب کورٹ کے جج عبداللطیف گولو کی عدالت میں پیش کیا اور موقف اختیار کیا کہ ملزمان کروڑوں روپوں کی بدعنوانی میں ملوث ہیں اور ان سے مزید تحقیقات کرنی ہے لہٰذا ان کا ریمانڈ دیا جائے۔ عدالت نے ملزمان کو دو جولائی تک احتساب بیورو کے حوالے کر دیا۔ دوسری جانب کمشنر بینظیر آباد غلام مصطفی پھل نے بھی سندھ ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرلی۔ جسٹس صادق حسین اور جسٹس حسن فیروز کی عدالت میں بیرسٹر ضمیرگھمرو نے قومی احتساب بیورو آرڈیننس کو بھی چیلنج کیا ہے۔ ضمیر گھمرو کا موقف ہے کہ نیب آرڈیننس کے تحت وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں تحقیقات کا حق نہیں رکھتی کیونکہ بدعنوانی کی روک تھام 1962 اور 1973 کے آئین کے مطابق صوبائی معاملہ ہے۔ وفاقی حکومت صرف اپنے ماتحت اداروں میں کرپشن کی تحقیقات کا اختیار رکھتی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نیب کو صوبائی اداروں میں کارروائی کو اختیار نہیں ہے۔ عدالت نے درخواست پر وفاقی وزرات قانون، چیئرمین نیب، سندھ حکومت اور صوبائی چیئرمین اینٹی کرپشن کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ دریں اثنا پیپلز پارٹی نے نیب کی صوبوں کے اندر کارروائیوں پر بھی شدید اعتراض کیا ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ نیب کے اختیارات سے تجاوز کو عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔ فیصلہ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت ہونیوالے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے اندرون سندھ نیب کے دفاتر کھولنے اور مختلف اداروں کے افسران سے تفتیش کرنے اور صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی اجازت کے بغیر گرفتار کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے نیب کی کارروائیوں کو 18 ترمیم سے متصادم قرار دیا اور کہا کہ نیب اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کی منظوری کے بغیر کارروائی کا کوئی اختیار نہیں رکھتی۔دریں اثنا گرفتار ملزم سلطان قمر صدیقی سے تفتیش میں اہم انکشافات کے علاوہ مزید 3 نام منظر عام پر آگئے۔ سلطان قمر صدیقی نے اپنے قریبی عزیز عبدالمنان، میر حبیب بلوچ اور یاسر کے نام بتائے ہیں۔ یاسر روزانہ فش ہاربر آ کر چیئرمین نثار مورائی، وائس چیئرمین سلطان قمر صدیقی کو ہدایات دیتا تھا۔ چیئرمین نثار مورائی کی نگرانی میں حکم نہ ماننے والے 7 افراد کو قتل بھی کیا گیا۔ میر حبیب بلوچ فش ہاربر کا ٹھیکیدار ہے۔