• news

قومی اسمبلی:26 کھرب47 کروڑ کے مطالبات زر منظور، معاشی میثاق کے لئے حکومت کی اپوزیشن کو دعوت

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ایجنسیاں) قومی اسمبلی نے 26 کھرب 47 کروڑ 15لاکھ 66 ہزار کے مطالبات زر کی منظوری دیدی۔ دفاعی بجٹ کیلئے 781 ارب روپے کی بھی منظوری دی گئی۔ لازمی اخراجات پر بحث میں محمود خان اچکزئی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ خیبرپی کے میں بلدیاتی الیکشن کے دوران ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، الیکشن کمشن کو بااختیار ادارہ بنایا جائے۔ سید آصف حسنین نے بھی پاکستان پوسٹ آفس کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمیں اخراجات میں کمی کرنی چاہیے۔ شازیہ مری نے کہا کہ پارلیمنٹ میں زیادہ حاضری خواتین ارکان کی ہے، ان خواتین کو ترقیاتی فنڈز ملنے چاہئیں۔ سندھ کا پی ایس ڈی پی میں حصہ 22 ارب سے کم کر کے 9 ارب 60 کروڑ کر دیا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ بجٹ کے اہداف حاصل نہیں کئے جا سکے، غربت میں کمی کے ساتھ ساتھ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا نہیں ہوئے۔ انہوں نے وفاقی قابل تقسیم محاصل میں سے صوبہ خیبرپی کے کو مناسب حصہ نہ ملنے کی بات کی اور کہا کہ کسی وفاقی اکائی کو نظر انداز کرنا آئین کے برعکس عمل ہے۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ ملک کی معیشت شرح نمو میں کمی اور بیرونی قرضوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ شرح نمو میں بہتری لانے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور قرضوں پر انحصار کم کیا جائے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات وقت کا اہم تقاضا ہے، بچت کو فروغ دینے کیلئے ہمیں طرز زندگی میں تبدیلی لانی چاہیے۔ غلام سرور خان نے کہا کہ پنجاب اور وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ساڑھے سات فیصد جبکہ باقی صوبوں نے 10 فیصد اضافہ کیا ہے، یہ اضافہ 15 فیصد ہونا چاہیے۔ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے قومی معیشت کا مشترکہ میثاق تیار کرنے کے لئے اپوزیشن کو حکومت کے ساتھ مل بیٹھنے کی دعوت دی۔ بجٹ کے لازمی اخراجات پر بحث کو سمیٹتے ہوئے انہوں نے اپنی معاشی کامیابیوں کا نقشہ کھینچا، اپوزیشن کی تنقید کو مسترد کیا اور کہا کہ بجٹ خسارہ ساڑھے چار فیصد کی سطح پر لایا جائے گا اور قرضوں کا حجم مزید کم کیا جائے گا۔ قرضے اور مالی خسارہ سمیت متعدد مسائل ورثہ میں ملے ہیں لیکن معیشت کو بتدریج بہتر بنانے میں کامیابی ملی ہے۔ ہماری حکومت نے اقتدار سنبھلتے ہی 34 میں سے 32 اداروں کے سیکرٹ فنڈز ختم کرنے کے ساتھ ساتھ صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور گورنرز کیلئے ڈیوٹی فری گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگائی اور ان کے صوابدیدی فنڈز بھی ختم کر دئیے۔ ایک رکن کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا اب کسی صوبہ کے فنڈز نہیں روکے جا سکتے۔ بجٹ خسارہ 8 سے کم کر کے 5 فیصد تک لے آئیں ہیں آئندہ سال اس کو مزید کم کرینگے۔ یہی حد آٹھ فیصد رہتی تو 26 سو ارب قرض لینا پڑتا۔ جتنی خسارے کی شرح کم ہو گی اتنا کم قرضہ لینا پڑے گا۔ قرضے واپس کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے قرض لئے۔ ڈالر چھاپ کر قرض نہیں ادا کر سکتے۔ قرضوں کا بوجھ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ ریونیو کو بڑھانا اور اخراجات کو کم کر کے بجٹ خسارہ کم کرنا ہے۔ اہداف اس لئے مقرر کرتے ہیں تاکہ پوری کوشش سے وہ حاصل کئے جائیں، اگر ہدف ہی کم رکھیں گے تو ٹارگٹ بھی کم حاصل ہو گا، دو سالوں میں ٹیکسوں کی شرح میں 33 فیصد اضافہ ہوا ہے، اگر ٹارگٹ مقرر نہ کرتے تو یہ کامیابی نہ ملتی۔ لیپ ٹاپ سکیم پی ایس ڈی پی کا حصہ ہے، ایکنک میں صوبوں کے وزرائے خزانہ موجود ہوتے ہیں، اگر اس سکیم میں کوئی سقم ہے تو ٹھیک کیا جائے گا، خشک دودھ پر ڈیوٹی لگانے یا نہ لگانے کے حوالے سے متفقہ فیصلہ کر لیں اس پر عمل کیا جائے گا۔ ارکان کی تجویز پر پولٹری کی صنعت سے ٹیکس ختم کیا گیا، جس کے فوری بعد پولٹری کی قیمتیں کم ہو گئیں۔ قرضوں کا حجم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے ساٹھ فیصد پر لائیں گے پی پی پی دور میں یورو بانڈ فروخت نہیں ہو رہے تھے ہمارے دور میں فروخت ہوئے کوئی مانے یا نہ مانے دنیا مان چکی ہے کہ پاکستان کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ ایوان نے مختلف وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز کے چورانوے مطالبات زر کی منظوری دیدی ہے، ان مطالبات زر پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی کوئی تحریک پیش نہیں کی گئی۔ متحدہ نے چوتھے روز بھی قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں سید آصف حسنین نے کہا کہ وزیر دفاع نے ہمارے حوالے سے جو بیان دیا ہے سپیکر اس کا نوٹس لیں، ہم اس بیان کے خلاف آج بھی واک آؤٹ کریں گے۔

ای پیپر-دی نیشن