• news

زرداری کا اشارہ سابق آمروں کی طرف تھا فوج کیخلاف نہیں، جنرل راحیل سچے سپہ سالار، بہت عزت کرتے ہیں : پیپلزپارٹی

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی + وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے افطار ڈنر میں اے این پی، متحدہ قومی موومنٹ اور ق لیگ کے رہنما شریک ہوئے۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق آصف علی زرداری نے وزیراعظم نواز شریف کو شرکت کی دعوت دی اور ان ذرائع کے دعویٰ کے مطابق وزیراعظم نے واضح جواب نہیں دیا تاہم وزیراعظم ہاﺅس اور پیپلز پارٹی نے اس کی تردید کی ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس کے ذرائع نے کہا ہے کہ آصف زرداری کے افطار میں شرکت کی دعوت نہیں ملی اگر پیپلز پارٹی نے کسی کو ذاتی حیثیت میں بلوایا ہے تو ہمیں اس کا علم نہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے تاہم کہا گیا ہے کہ ہم نے صرف اتحادیوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔اس افطار ڈنر میں اے این پی کے افراسیاب خٹک، میاں افتخار حسین، ایم کیو ایم کے فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی، میاں عتیق، بیرسٹر سیف نے شرکت کی۔ ق لیگ کے چودھری شجاعت حسین، روبینہ عرفان، سینیٹر سعید مندوخیل شریک ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو افطار ڈنر میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی تھی۔ زرداری اور فضل الرحمن کے درمیان ملاقات ہوسکتی ہے۔ صرف پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعتوں کے رہنماﺅں کو بلایا تھا۔ اتحادی بلانے کا مقصد ایکشن پلان اور ضرب عضب پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ آصف زرداری کی جانب سے افطار ڈنر کی دعوت نہیں ملی جب ہمیں کسی نے بلایا ہی نہیں تو جانے کا سوال کیسا؟ میزبان سے پوچھا جائے کہ اس نے دعوت کس کس کو دی ہے؟ فوج سے متعلق زرداری کے بیان پر حکومت اپنا مو¿قف واضح کرچکی ہے۔ میں تو مسجد میں افطار کرتا ہوں، میرا زرداری ہاﺅس میں کیا کام ہے۔ مجھے افطار ڈنر میں شرکت کی دعوت نہیں ملی۔ اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے آصف زرداری کے افطار ڈنر میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے گھر مہمان آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی شرکت میں معذرت کرچکی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے افطار ڈنر میں شرکت سے معذرت کرلی ہے۔ ان کے ذاتی معاون نے بی بی سی کو بتایا کہ سراج الحق افطار پارٹی میں پہلے سے طے شدہ مصروفیات کے باعث شرکت نہیں کرپائیں گے۔ اس سے قبل ق لیگ کے رہنما سینیٹر کامل علی آغا نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا تھا کہ ہم افطار ڈنر میں اس شرط پر شرکت کریں گے کہ پہلے زرداری فوج کے خلاف دیا گیا بیان واپس لیں۔ سندھ کی اہم جماعت ایم کیو ایم کے رہنما سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ زرداری نے بلایا ہے ہم کیوں نہ جائیں، مسلمانوں کا فرض ہے، کھانا اچھا کھلاتے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق اطلاعات کے مطابق ق لیگ کے رہنما چودھری شجاعت حسین نے زرداری سے افطار ڈنر پر الگ ملاقات کی جس میں ان کے بیان پر بات چیت ہوئی۔ چودھری شجاعت نے کہا کہ پاک فوج دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں مصروف ہے۔ پاک فوج کیخلاف بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے۔ فوج کیخلاف بیان ٹھیک نہیں، یہ واپس لیں۔ اس ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری بھی موجود تھے۔ نجی ٹی وی کے مطابق زرداری کے افطار ڈنر کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے رہنما¶ں کا اجلاس ہوا جس میں آپریشن ضرب عضب، نیشنل ایکشن پلان، کراچی آپریشن اور ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر مشاورت کی گئی۔ اجلاس میں کراچی کے معاملات قومی اسمبلی اور سینٹ میں اٹھانے پر مشاورت کی گئی۔ اپوزیشن اتحادی جماعتوں کے اس اجلاس میں مولانا فضل الرحمن نے بھی شرکت کی۔ ایم کیو ایم نے کراچی آپریشن پر تحفظ سے آگاہ کیا اور مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت اپنا کردار ادا کرے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ دیگر پارٹی رہنماﺅں نے بھی شرکت کی ان میں شیری رحمان، قمر زمان کائرہ، خورشید شاہ، سابق چیئرمین سینٹ نیئر بخاری، رحمن ملک، اے این پی کی جانب سے افراسیاب خٹک، میاں افتخار حسین، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، ق لیگ کے وفد میں چودھری شجاعت حسین، روبینہ عرفان اور سینیٹر سعید مندوخیل، ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار، بیرسٹر سیف خالد مقبول صدیقی، میاں عتیق اور عبدالوسیم نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ اور شیری رحمان نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہمارے لئے معتبر ہیں ہم انکی خدمات کا بھی اعتراف کرتے ہیں، فوج مہذب ادارہ ہے، آصف زرداری نے آپریشن ضرب عضب کو سراہا ہے، ان کا بیان فوج نہےں سابق آمروں کے خلاف تھا ، آصف زرداری کی تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی مفاہمتی پالیسی جاری رہے گی، زرداری اپنا بیان واپس نہیں لیں گے اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا‘ مفاہمتی پالیسی آصف زرداری کا طرہ امتیاز ہے، کراچی آپرےشن کی مکمل حماےت کرتے ہےں،فوجی اور سول قےادت کی حدود متعین ہے تمام ادارے اپنی حدود مےں رہ کر فرائض سرانجام دےں، رینجرزاپنے مینڈیٹ کے اندرکام کرے، ہم اسکی حماےت کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی نے کرپشن کا دفاع کیا ہے نہ آئندہ کرے گی۔ آصف علی زرداری کی طرف سے سیاسی رہنماﺅں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے، زرداری کا بیان خاص تناظر میں تھا، کیونکہ پیپلز پارٹی نے ہمیں آمروں کا سامنا کیا، اس لئے آصف علی زرداری نے بھی سابق آمروں کے خلاف بیان دیا فوج کے خلاف نہیں، ان کا بیان پوری پارٹی کی سوچ ہے اور میڈیا نے اسے مکمل طور پر بیان نہیں کیا، اس پر جو طوفان اٹھایا گیا ہے، اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں لیڈر بیان دیتے وقت سوچا نہیں کرتے، آصف زرداری کی تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی سپورٹ کر رہے ہیں۔ رینجرز اپنے فرائض صحیح طریقے سے سرانجام دے رہی ہے۔ اب نیشنل ایکشن پلان کو اگلے مرحلے میں لے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے وہ اس پر فوری طور پر غور کرے۔ پیپلز پارٹی نے نہ کبھی حالات خراب کئے اور نہ ہی خراب کرنے کی طرف کبھی لے کر جائے گی۔ شیری رحمن نے کہا کہ اجلاس میں آصف علی زرداری کے بیان پر بات ہوئی ہے ہم نے پچھلے آمروں کی بات کی تھی پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے اجلاس میں پاک فوج کی کامیابیوں کو سراہا گیا افطار ڈنر کے حوالے سے ایک ہفتہ قبل دعوت دی گئی تھی جس میں سیاسی امور پر بات چیت ہوئی پاک فوج مہذب ادارہ ہے پی پی پی نے ہمیشہ آمر جرنیلوں کا سامنا کیا اور کرتے رہیں گے ڈریں گے نہیں، پارٹی نے جنرل راحیل شریف کے کردار کو سراہا ہے۔ جنرل راحیل شریف سچے اور حقیقی سپہ سالار ہیں ہم انکی بہت عزت کرتے ہیں۔ آصف زرداری کا اشارہ سابق آمروں کی طرف تھا ملک دشمن قوتیں اس وقت متحرک ہیں پی پی پی کی قیادت نے جمہوریت کیلئے شہادتیں دی ہیں۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ آصف علی زرداری نے تمام سیاسی رہنما¶ں کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے زرداری نے ہمیشہ سیاست میں مفاہمت کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔ ان کا مفاہمانہ رویہ جاری رہے گا صرف پی پی پی ہی سب کو ساتھ لے کر چل سکتی ہے۔ مفاہمت کی سیاست آصف زرداری کا طرہ امتیاز ہے۔ یہی پی پی پی کی پالیسی ہے۔ کراچی آپریشن پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہے۔ تمام ریاستی اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی نے زرداری کو بیان واپس لینے کے لئے نہیں کہا۔ مولانا فضل الرحمن کو افطار ڈنر میں شرکت سے کسی نے منع نہیں کیا‘ 18ویں ترمیم کے بعد بھی کوئی ادارہ بعض اوقات حدود سے قدم نکالتا ہے اسے بہتر کرنا ہو گا نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ زرداری کے بیان کو پوری پارٹی کی حمایت حاصل ہے لیڈر بیان دیتے وقت پوچھا نہیں کرتے پی پی پی تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے پاکستان کو سیاسی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ق لیگ کے رہنما چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ مفاہمت کی پالیسی جاری رہنی چاہئے کیونکہ اس میں پوری قوم کا مفاد ہے‘ پاک فوج کا عزت و وقار کسی صورت بھی متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ آصف علی زرداری نے نام لئے بغیر بعض سابق فوجیوں کے بارے میں نشاندہی کی تھی۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہماری موجودہ مسلح افواج کے بارے میں کسی کا منفی تاثر نہیں ہونا چاہئے۔ فوج کی عزت اور وقار میں کمی نہیں آنی چاہئے۔ اس ادارہ نے ہمیشہ اپنے خون سے گلشن وطن کی آبیاری کی ہے وہ اب بھی خارجی اور داخلی محاذوں پر عظیم الشان قربانیاں دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مشاورت زرداری کے بیان سے پہلے ہو جاتی تو بہتر تھا۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری کی طرف سے ہمیں افطار ڈنر کی دعوت نہیں دی گئی اس لئے ہماری جماعت سے اس بارے مےں سوال نہ کےا جائے تو بہتر ہے ۔ رینجرز اور حکومت سندھ کے درمیان جو خلا پیدا ہو رہا اس سے دہشت گردوں کو فائدہ پہنچے گا کراچی کیلئے نقصان دہ ہو گا سندھ میں گورنر راج کا کوئی امکان نہیں۔ رینجرز کی طرف سے 24 ناموں کی فہرست جو جاری کی گئی تھی اسے سامنے لایا جائے جن لوگوں کے نام فہرست میں شامل ہیں وہ کیوں خوف زدہ ہیں اگر ان کا دامن صاف ہے تو انہیں ڈرنا نہیں چاہئے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا آپس میں رشتہ اسلام آباد کے غیر یقینی موسم کی طرح ہے ‘ ایم کیو ایم نے ا یک طرف سندھ حکومت کا بجٹ مسترد کر دیا ہے تو دوسری طرف سابق صدر آصف زرداری کے افطار ڈنر میں شرکت کی۔

ای پیپر-دی نیشن