• news
  • image

کیا رویت ہلال کمیٹی کو ختم کر دینا چاہیے

پہلے ہم دو عیدوں کو روتے تھے۔ اب دو دو رمضان بلکہ کئی رمضان؟ ایک رمضان جمعرات 18 جون کو شروع ہوا۔ دوسرا 19 جون کو شروع ہوا۔ سارے عالم اسلام میں پہلا روزہ 18 جون جمعرات کو تھا مگر رویت ہلال کمیٹی کے مفتی منیب الرحمن سیاستدان ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اختیار کو استعمال کیا اور پہلا روزہ جمعہ کو کر دیا۔ اب سب پاکستانیوں کو ان کا حکم ماننا ہے۔ ان کا حکم صرف رمضان اور عید کے لئے چلتا ہے۔
پورے پاکستان میں جمعے کو روزہ ہو یا رویت ہلال کمیٹی کو توڑ دیا جائے۔ اگر پشاور کی مسجد قاسم علی کے مولانا پوپلزئی کو چاند دیکھے جانے کی شہادت مل گئی ہے تو مفتی منیب الرحمن کو کیوں نہیں ملی۔ معذرت سے عرض ہے کہ دونوں میں سے ایک تو غلط ہے جبکہ دونوں اپنے آپ کو سچا مانتے ہیں۔کہتے ہیں کہ سچے تم بھی ہو مگر میرا سچ تیرے سچ سے مختلف ہے۔
مفتی منیب صاحب تو اس پر بھی ناراض ہوئے کہ ہمارا اجلاس محکمہ موسمیات کے دفتر میں کیوں بلایا گیا۔ ہمیں اپنا دفتر کیوں نہیں دیا جاتا۔ ہم سارا سال ماہ رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کے لئے تیار ہیں۔ مفتی صاحبان اور مولوی صاحبان بہت سرگرم اور اہم ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی کو آج کا اخبار لانے کے لئے کہا گیا تو اس نے کہا کہ جناب میں کل سے آج کا اخبار ڈھونڈ رہا ہوں نجانے کہاں چلا گیا؟
مسجد قاسم علی پشاور کے مولانا پوپلزئی کو رویت ہلال کمیٹی کا صدر کیوں نہیں بنا دیا جاتا۔ جب ہر محکمے کے لئے ایک معیار مقرر ہے تو اس میں بھی ہونا چاہیے۔ مولانا پوپلزئی کو اے این پی والے بلور صاحبان اور میاں افتخار بہت پسند کرتے ہیں۔ جب وہ حکومت میں تھے تو باقاعدہ پہلی رمضان سے پہلے مولانا کو بہت پروٹوکول دیتے تھے۔ جو بات پاکستان کے اتحاد کے اور مفاد کے خلاف ہو انہیں بہت اچھی لگتی ہے۔
میاں افتخار حسین کا بیٹا شہید ہوا انہیں تھانے میں حوالات کی ہوا کھانا پڑی۔ ہمیں ان کا رویہ اچھا لگا تھا۔ وہ مقتول کے گھر بھی گئے جبکہ تحریک انصاف والوں کو یہ توفیق نہ ہوئی مگر دو دن بعد خیبر پختون خوا حکومت کے استعفیٰ کے لئے خود میاں صاحب اپنے غنڈوں کے ساتھ زبردستی دکانیں بند کروا رہے تھے تو اچھا نہیں لگا۔ اس مظاہرے کا کیا بنا؟ میاں افتخار کو اب میاں نواز شریف کو جائن کر لینا چاہئے۔
جس حکومت نے تفرقے سے بچنے کے لئے رویت ہلال کمیٹی کی نگرانی کر رکھی ہے کیا وہ پشاور کے مولانا پوپلزئی سے نہیں کہہ سکتے کہ آپ اس معاملے میں رمضان اور عید کا اعلان کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ وہ ہر دفعہ مسکراتے ہوئے مذاق اڑانے کے انداز میں مفتی منیب کے اعلان سے ایک دن پہلے رمضان اور عید کا اعلان کر دیتے ہیں۔ انہیں احساس نہیں کہ پشاور میں بھی پچھتر فیصد سے زیادہ لوگ روزہ نہیں رکھتے۔ پورے پاکستان میں جمعے کو روزہ ہے مگر ہر سال اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لیتے ہیں۔ اسے اینٹ سے اینٹ بجانا بھی کہہ سکتے ہیں۔ آج جمعے کو ’’صدر‘‘ زرداری نے اپنی صف آرائی کرنے کے لئے افطار ڈنر کر رکھا ہوا ہے۔ مولانا پوپلزئی اس کے خلاف احتجاج کریں مگر ان کے کرم فرما لیڈر اسفند یار ولی تو جا رہے ہیں۔ ان کا روزہ نہیں ہو گا۔ مگر وہ افطار ڈنر ضرور کریں گے اور سیاسی فرقہ واریت کے لئے کوئی نہ کوئی بیان بھی دے دیں گے۔ میری گذارش ہے کہ چودھری شجاعت نہ جائیں۔ وہ بہت سیانے اور سیاست کے عقلمند ترین آدمی ہیں۔ انہیں چودھری پرویز الٰہی روک لیں۔ انہیں کہیں کہ روٹی شوٹی اج گھر ہی کھا لیں اور دوسروں کو کھلائیں۔ انہوں نے جنرل مشرف کو اس لئے مسترد کر دیا تھا کہ وہ مسلم لیگیوں کو اکھٹا کر کے خود ’’صدر‘‘ بننا چاہتے تھے۔ مشرف نے چودھری صاحبان کے ساتھ دھوکہ کر کے اپنے آپ سے اچھا نہیں کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت بنوا دی؟
مجھے لگتا ہے کہ یہ رویت ہلال کمیٹی اسلامی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اب یہ رواج پڑ گیا ہے کہ ہم ہر بات میں اسلامی اور غیراسلامی لے آتے ہیں۔ یہ کمیٹی ایسی ہی کمیٹی ہے جو حکومتیں جان چھڑانے کے لئے بناتی رہتی ہیں۔ یہ بھی ریاستی یا حکومتی یا سرکاری رویت ہلال کمیٹی ہے۔ پہلے ہر بستی کی اپنی عید ہوتی تھی۔ ہر بندہ چاند دیکھتا تھا اور لوگ اس کے مطابق اپنے شہر میں روزہ رکھتے تھے۔ اب تو جیسے روزہ بھی سرکاری ہو گیا۔
سنا ہے اس بار جس سٹیج پر کھڑے ہو کر مفتی منیب اور مفتی صاحبان چاند دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے وہ ان کے بوجھ تلے آ کے ٹوٹ گیا۔ مفتی منیب گرتے گرتے بچے۔ ان بزرگ قابل احترام لوگوں کو چھت پر کھڑا چاند نظر نہیں آتا۔ انہیں فضائوں میں چند لمحوں کا مہمان چاند کیسے نظر آئے گا۔ حیرت ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے زمانے مں جب سب کچھ انسان کی ہتھیلی پر آ گیا ہے۔ ہم چاند دیکھنے کا روائتی طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہم کہ اختیار سے واقف ہیں نہ بے اختیاریوں سے واقف ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا ہمارا مذاق اڑاتی ہے۔ ہم خود اپنا مذاق اڑواتے ہیں۔
ہم جب حج سعودی عرب کے مطابق کرتے ہیں تو پہلا روزہ اس کے ساتھ کیوں نہیں رکھ سکتے۔ عید کیوں نہیں منا سکتے۔ سعودی عرب میں حج کے دوسرے دن پاکستان میں حج منایا جا رہا ہوتا ہے۔ ماشااللہ؟ سارے عالم اسلام میں ایک دن ہمارے سارے تہوار ہونا چاہئے۔ کبھی پیغمبر برحق حضرت یسوع مسیح کا یوم ولادت کرسمس 25 دسمبر کو ہوتا ہے۔ چیزیں بھی سستی ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں رمضان میں کیا حال ہوتا ہے۔ مہنگائی کا ایک طوفان آیا رہتا ہے۔ کئی لوگ رمضان میں کمائیاں کر کے دو مہینے بعد حج پر چلے جاتے ہیں اور کئی حج بڑے خضوع خشوع سے کرتے ہیں اور الحاج کہلواتے ہیں۔
ایک مولوی صاحب جمعے کے خطبے میں بتا رہے تھے کہ لاکھوں حاجیوں میں سے کسی کا حج قبول نہیں ہوا تھا۔ مگر اس آدمی کی وجہ سے سب کا حج قبول ہو گیا۔ جس نے حج کیا بھی نہ تھا۔ عراق میں کسی موچی نے عمر بھر پیسہ پیسہ جوڑا کہ حج کرے گا۔ حج پر روانگی سے پہلے وہ ہمسائے میں گیا تو وہاں بچے رو رہے تھے۔ پوچھا کہ کیا ہوا تو بیمار عورت نے کہا انہوں نے تین دن سے کھانا نہیں کھایا۔ موچی گھر گیا اور حج کے لئے جمع کی ہوئی ساری رقم لا کے اس عورت کے ہاتھ پر رکھ دی اور گھر جا کر اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھ کے رونے لگ گیا۔
دل بدست آرد کہ حج اکبر است
لوگوں کے دل جیت لو کہ یہی حج اکبر ہے۔ محبتیں بانٹو کے یہی نیکی ہے۔ لوگوں کو معاف کرو اور معافی مانگتے رہو کہ یہ اللہ کو بہت پسند ہے۔ پہلا روزہ کسی نے جمعرات کو رکھا یا جمعے کو رکھا اسے جزا ملے گی مگر ان لوگوں کو سزا کب ملے گی جو انسانوں کو تقسیم کرتے ہیں اور دین کے نام پر تقسیم کرتے ہیں۔ ہمارا میڈیا اس میں برابر کا شریک ہے کہ انہوں نے مفتی منیب الرحمن کی اور مولانا پوپلزئی کی تقریر برابر برابر دکھائی اور لوگوں کو پریشان کیا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن