بے نظیر بھٹو جنم دن… قتل سازش بے نقاب
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جب حیات تھیں اور ان کی شہادت کے بعد بھی باقاعدگی سے انکے جنم دن کو میں مناتا رہا ہوں۔ شہید بی بی کے ساتھ آٹھ سال جو مجھے اکٹھے کام کرنے کا خوشگوار تجربہ ہوا، ان سے متعلق ہزاروں ایسی باتیں اور یادیں میرے ساتھ وابستہ ہیں جن کو میں روزانہ کی بنیاد پر یاد کرکے انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور یہ یادیں میرا سرمایہ حیات ہیں۔ گذشتہ سال شاید انہی دنوں میں نے قارئین اور جیالوں کو یہ خبر دی تھی کہ امسال 27 دسمبر کو میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش بے نقاب کروں گا۔ پھر ملکی سلامتی اور زمینی حالات کچھ اس طرح سے بدلے کے سانحۂ ماڈل ٹائون اور سانحۂ پشاور رونما ہو گئے، جس کی وجہ سے پوری پاکستانی قوم حالتِ غم میں تھی۔ پھر اسکے ساتھ ہی آپریشن ضربِ عضب شروع ہو گیا۔ پوری قوم یک جان اور متحد ہو کر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ دھرنے ختم کر دیئے گئے، پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیاں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ضربِ عضب کو کامیاب بنانے کیلئے پوری قوم کی آواز پر لبیک کہا اور ظالموں کا گھیرا تنگ کرنے کیلئے نئے مروجہ قوانین منظور کیے۔ ان سب حالات میں 27دسمبر کا دن آیا اور خاموشی سے گزر گیا۔ میرے نوائے وقت کے لاکھوں قارئین مجھے میرا وعدہ یاد دلاتے رہے۔ میں کارکنان پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان کے عوام کی شہید محترمہ کے ساتھ دلی عقیدت کو سمجھ سکتا ہوں مگر اپنے ساتھیوں اور وکلاء سے مشورہ کے بعد میں نے سازش بے نقاب کرنے کا اعلان عارضی طور پر اس لیے موخر کر دیا کہ میرے نزدیک ملکی سلامتی اور بقائے پاکستان پہلی ترجیح ہیں۔ اس سارے عرصہ کے دوران بے شمار واقعات رونما ہوئے، بہت سا پانی پُلوں کے نیچے سے بہہ گیا۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی، ہزاروں مار دیئے گئے، بے شمار گرفتار کر لئے گئے۔ منوں اور ٹنوں کے حساب سے اسلحہ اور بارود برآمد کیا گیا۔ یقیناً ہمارے سینکڑوں شیردل افسر اور جوان بھی جامِ شہادت نوش کر گئے۔ میرا یہ ایمان ہے کہ قانون رب العزت سے بہتر کوئی قانون زمین اور آسمانوں پر نہیں ہے اور خدا کی گرفت سے کوئی فرعون بھی آج تک نہیں بچ سکا۔ اسی لیے خدا نے جس طرح فرعون کے گھر موسیٰ کو پروان چڑھایا تھا اسی طرح زرداری کی گود میں پروان چڑھنے والے ذوالفقار مرزا نے آصف علی زرداری کی وہ سیاسی، سماجی درگت بنا دی کہ آج تمام گنہگار منہ چھپاتے ہوئے بھاگ رہے ہیں مگر شرمندگی اور احساسِ جرم کی وجہ سے ان پر یہ زمین تنگ پڑ رہی ہے۔ ذوالفقار مرزا کے علاوہ نبیل گبول اور فیصل رضا عابدی کے انکشافات نے بھی گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق کام کیا ہے۔ انسان کئی دوسرے انسانوں کو دھوکا دے سکتا ہے مگر قانونِ فطرت سے بچ کر بھاگ نکلنا اسکے بس کی بات نہیں۔ ذوالفقار مرزا جو باتیں آج کہہ رہے ہیں اس جیسی ملتی جلتی بات میں نے 20 فروری 2008ء کے دن زرداری ہائوس اسلام آباد میں ہونے والے نومنتخب اراکین قومی اسمبلی، اراکین فیڈرل کونسل و سینٹر ایگزیکٹو کمیٹی کے مشترکہ اجلاس سے اپنی افتتاحی تقریر میں کہی کہ ہمیں اقتدار کے پیچھے بھاگنے کی بجائے شہید محترمہ کے قتل کی سازش کو بے نقاب کرنا ہوگا۔
قارئین شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور انکے خاندان نے اپنی جانوں کے نذرانے دیکر پاکستان کی ڈوبتی نائو کو بچایا۔ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ہنری کسنجر نے دھمکی آمیز خط لکھا اور انہیں فون کرکے نیوکلیئر پاکستان بنانے سے منع کیا توشہید قائد عوام وزیراعظم ہائوس سے ایک عام گاڑی پر سوار ہو کر راجہ بازار راولپنڈی جا پہنچے اور اپنے عوام کو اعتماد میں لیا۔ اسی طرح شہید رانی کو بھی 18اکتوبر2007ء کو اڑھائی سو لاشوں کا تحفہ بھیج کر پیغام دیا گیا مگر وہ پھر بھی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مقتل گاہ پہنچ گئیں اور آج انکے جنم دن کے موقع پر میں بھی یہ عہد کرتا ہوں کہ پاکستان کی بقائ، سالمیت اور تحفظ کیلئے اپنی جان بھی دینی پڑی تو یہ سودا میرے لیے کچھ مہنگا نہیں۔ اس کالم کے ذریعے اعلیٰ عدالت کو میں نے جو پیغام بھجوایا ہے اگر اس پر مستقبل قریب میں ایکشن نہ ہوا تو میں واقعات و اسباب پر مشتمل بہت جلد ایک کتاب شائع کروں گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا ہم پر قرض ہے کہ ہم ان کے قاتلوں کا پیچھا کرتے ہوئے ان کو انجام تک پہنچائیں۔ یہی محترمہ سے محبت ہے اور یہی ان کی وراثت ہے کہ انکے قاتلوں کو تختہ ٔ دار تک پہنچایا جائے۔ آصف علی زرداری نے سی ای سی کے ایک اجلاس میں اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی اور کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں اور بلاول محترمہ بی بی کے وارث ہیں مگر میں اس بات کو تسلیم اس لیے نہیں کرتا کیونکہ انہی لوگوں نے محترمہ کے خون کے سودے کیے اور اس خون سے مفادات حاصل کیے۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو مائی ڈیئر لیڈر!