کوپن ہیگ میں غلام صابر کی پاکستانیت کی روشنی
خبر ہے کہ یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کو اس بار رمضان المبارک میں زیادہ صبر کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ ڈنمارک اور نواحی ممالک میں تو روزہ 22 گھنٹے تک طویل ہو سکتا ہے۔ پھر بھی سنا ہے کہ وہاں کے مسلمان بہت زیادہ پرجوش ہیں۔ اگر وہاں کے مسلمان اس صبر آزما صورتحال میں بھی معمول سے ہٹ کر پرجوش ہیں تو اس کا پس منظر بھی ہے۔ دراصل وہاں غلام صابر جیسے مسلمانوں نے ایک ماحول بنایا ہے۔ یہ غلام صابر کون ہیں… ایک دانشور، علامہ اقبال کے ایک عاشق، روح کی گہرائی تک مسلمانوں اور عالم سے خصوصاً جوانوں سے محبت کرنے والے… 1925ء میں آنکھ کھولی، لاہور سے چلے، پی آئی اے اور کوریا ائرلائنز میں ایک سینئر آفیسر کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ لی اور پھر کوپن ہیگن کو اس طرح اپنا مسکن بنایا کہ پورے ماحول کو اقبالیاتی ویژن سے منور کر دیا۔ 2015ء میں آخرکار حکومت پاکستان نے بھی ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور انہیں صدارتی ایوارڈ، گولڈ میڈل اور اعترافی سند سے نوازا گیا۔ غلام صابر کو یہ ایوارڈ علامہ اقبال کے حوالے سے متعدد کتب کی بنیاد پر دیا گیا۔ یہ وہ کتب ہیں جن سے پاکستان اور خاص طور پر ایران، ڈنمارک سمیت یورپ کے متعدد ممالک کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔ اگرچہ ان کی تصنیفات میں ’’اقبال شاعر فردا‘‘ کیکریگارڈ اور اقبال (انگریزی) کیکریگارڈ اور اقبال (ڈینش زبان میں)، اقبال (فارسی زبان میں) اور ایسی ہی دوسری کتابیں شامل ہیں لیکن ان کی تصنیف IQBAL RELIGION AND PHYSICS OF NEW AGE نے تو اپنا الگ تاثر قائم کیا۔ ایک عرصہ سے اقبال اکیڈمی لاہور ان کی کتابوں کی اشاعت کر رہی تھی۔ جناب غلام صابر خود ڈنمارک میں اقبال اکیڈمی کی مقامی شاخ کے بانیوں میں ہیں اور ایس ای عادل انصاری، پرویز اقبال، عابد علی عابد، ڈاکٹر اکرم خواجہ، ایم کامل، ایاز محمود، سروش عالمگیر، سیما کامل جیسے لوگ جو خود اپنی جگہ ایک مقام رکھتے ہیں، اس اکیڈمی کے بورڈ کے ارکان میں شامل ہیں اور اس اکیڈمی کے زیراہتمام ہر سال کوپن ہیگن میں اس جوش و خروش سے یوم اقبال کے حوالے سے تقاریب کا اہتمام ہوتا ہے جیسے لاہور میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے وہ لاہور میں اپنے فرزند طارق میاں کے ہاں آئے تو ان سے ملاقات ہوئی۔ اس وقت بھی انہوں نے سیاست کی بجائے علمی موضوعات کو چھیڑے رکھا۔
چند دن پہلے لندن میں مقیم ماموں عبدالمعید سے بات ہو رہی تھی، ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں پاکستان کا سافٹ امیج سامنے لانے والے پاکستانیوں کو پاکستانی میڈیا کیوں سامنے نہیں لاتا۔ ان کا اشارہ اس تقریب کی طرف تھا جو کوپن ہیگن میں جناب غلام صابر کو صدارتی ایوارڈ دیئے جانے کے حوالے سے منعقد ہوئی تھی اور جس کا اہتمام پاکستانی سفارتخانے نے کیا تھا۔ یہ تقریب واقعی زبردست تھی کیونکہ اس میں پاکستان کے سفیر مسرور جونیجو اور ایران کے سفیر حامد بایات نے بھی دانش کے فروغ میں پاکستانیوں کی خدمات کو سراہا۔ اظہار خیال کرنے والوں میں نصر ملک، باشی قریشی، مونس کامل، سعدیہ معید (معید ماموں کی ہونہار بیٹی) مسز سعدیہ اکبر منان، مسز ناہیدشامل تھیں۔ اردو زبان کے معروف شعرا اقبال اختر اور اسلم ساقی نے غلام صابر کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ اس طرح ایک اور سیمینار میں بھی غلام صابر کی سکینڈے نیوین معاشرے میں پاکستان اور علامہ اقبال کے حوالے سے خدمات پر خراج تحسین پیش کیا گیا اور پاکستانی اور ایرانی سفیر کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا سے ڈاکٹر امنیا نے خصوصی تقاریر کیں۔ یہاں محمد کامل، عابد علی عابد، باشی قریشی، طاہر محمود اور صفدر علی ہمدانی کی تقاریر کے بعد جناب غلام صابر کا 90 سالہ عمر کے باوجود انداز خطاب ایسا تھا کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہمارے دفتر خارجہ اور خاص طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کے امور کے نگران شعبے کو بھی اس معاملے کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ بیرون ملک ان پاکستانیوں کی سرگرمیوں کو سامنے لانے میں کردار ادا کریں جو پاکستانیت کے فروغ کیلئے پرجوش ہیں اور جن کی محنت سے رمضان المبارک کے 22 گھنٹوں پر محیط روزے بھی ایک نئی سرگرمی کا باعث ہیں۔