• news

وزیرستان ، فاٹا اور بلوچستان میں ابھی تک دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں: کراچی: تشدد میں شدت پسند تنظیمیں ، مذہبی گروپ ، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ملوث ہیں : امریکہ

واشنگٹن (صباح نیوز+ آن لائن) امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان کو انتہائی اہم ساتھی قرار د یتے ہوئے آپریشن ضرب عضب کوکامیاب قراد دیا ہے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی فہرست میں شامل تعاون نہ کرنے والے ممالک کو سخت ترین امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان متعدد شدت پسند گروپوں کا مقابلہ کررہا ہے جن میں سے کئی پاکستانی حکومت یا حریف مذہبی فرقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ رپورٹ کی مزید تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں2014ء میں پاکستان کا تعاون ملا جلا رہا پاکستان انسداد دہشت گردی کی تربیت دینے والے ٹرینرز کو ویزے دینے سے انکار کرتا رہا۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کی قیادت کو کافی نقصان پہنچا تاہم تنظیم کی عالمی قیادت ابھی تک خطے کے دوردراز علاقوں سے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔القاعدہ کی قیادت کو خطے میں افغان، پاکستانی اور بین الاقوامی فورسز سے دباؤ کا سامنا ہے شمالی وزیرستان آپریشن سے گروپ کی آزادی سے کام کرنے کی طاقت مزید متاثر ہوئی ہے۔ افغانستان سے متعلق باب میں دعوی کیا گیا ہے کہ اسے اب بھی افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی جانب سے بڑے حملوں کا سامنا ہے جبکہ ان میں سے کئی حملوں کی منصوبہ بندی مبینہ طور پر پاکستان میں کی گئی ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 2014ء میں پاکستانی فوج نے پاکستان میں حملے کرنے والے گروپوں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی تو کی تاہم اس نے لشکر طیبہ جیسے گروپوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جو اب بھی پاکستان میں تربیت دینے، پروپیگنڈا کرنے، لوگوں کو بھرتی کرنے اور فنڈز جمع کرنے میں ملوث ہے۔ افغان طالبان اور حقانی قیادت کی پاکستان میں اب بھی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ پاک فوج کے آپریشنز نے ان کی کارروائیوں کو متاثر ضرور کیا تاہم انہیں براہ راست نشانہ نہیں بنایا گیا۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ 2014 میں لشکر طیبہ پاکستان میں آزادی سے کام کرتی رہی ہے جبکہ حکومت نے گروپ کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی۔ 2014 میں بھی فرقہ وارانہ گروپوں اور اقلیتوں کے خلاف حملے جاری رہے تاہم اس مرتبہ عاشورہ کسی بڑے حملے یا فسادات کے بغیر گزر گیا۔ کراچی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ شہر میں مختلف گروپوں کے درمیان سیاسی اور لسانی تشدد جاری رہا جس میں عسکریت پسند تنظیمیں، شدت پسند مذہبی گروپ اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ملوث رہے ہیں۔ کراچی کی سکیورٹی صورتحال پاکستانی قیادت کی ترجیحات میں رہی جس نے شہر میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔ پاکستانی فوج طالبان سمیت تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف بلا تفریق آپریشن کررہی ہے جن ممالک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے ان میں پاکستان سرفہرست ہے۔ دنیا میں دہشت گردی میں اضافہ جبکہ پاکستان میں کمی ہوئی۔ 2014ء میں دہشت گردوں کے واقعات کے باعث 33 ہزار افرار مارے گئے۔ گذشتہ سال شدت پسندی کے 20 واقعات میں سو سے زائد افراد مارے گئے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں موصل میں ہوئیں جہاں دولتِ سالامیہ نے ایک جیل پر حملہ کرکے 670 شیعہ قیدیوں کو ہلاک کردیا جبکہ دوسرے واقعہ میں پشاور میں طالبان نے بچوں کے سکول پر حملہ کر کے بچوں سمیت 150 افراد کو شہید کیا۔ القاعدہ کی عالمی سطح پر شدت پسندی کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے دولتِ اسلامیہ دنیا کا سب سے بڑا شدت پسند گروپ بن گیا ہے اس میں بڑی تعداد میں غیر ملکی جنگجو شامل ہو رہے ہیں۔’دسمبر کے آخر تک 16 ہزار غیر ملکی دہشت گرد شام گئے تعداد گذشتہ 20 سال میں کسی بھی عرصے کے دوران پاکستان، افغانستان، عراق، یمن اور صومالیہ جانے والے شدت پسندوں سے زیادہ ہیں۔ ’دولتِ اسلامیہ نے 2014 میں عراق اور شام میں غیر معمولی طور پر علاقوں پر قبضہ کیا ہے اس کی غیر ملکی شدت پسندوں کو بھرتی کرنے کی صلاحیت برقرار ہے۔ اس نے لیبیا، نائجیریا اور مصر میں اتحاد قائم کیا ہے۔ مغرب میں کسی شدت پسند گروپ سے تعلق نہ رکھنے والے شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا۔ شدت پسندوں نے اپنے زیر تسلط برادریوں کو ڈرانے دھمکانے اور ان کو دبانے کے لیے انتہائی شدت پسند طریقے اپنائے۔‘ امریکی محکمہ خارجہ میں انسداد دہشت گردی کی اعلیٰ اہلکار ٹینا کیدونوو نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ’دہشت گردی کے جس چلینج کا ہمیں سامنا ہے وہ تیزی سے بڑھا رہا ہے۔ درست اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ آئندہ دہائی بلکہ یہاں تک کہ ایک سال کے اندر کیا شکل اختیار کرے گا۔‘ ہمیں ایسے ماحول سے نمٹنے کی زیادہ ضرورت ہے جہاں شدت پسندی فروغ پاتی ہے۔ پھر وہاں سے دہشت گردی کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اہم علاقے جن میں افغان سرحد سے ملحقہ علاقے وزیرستان بلوچستان اور فاٹا شامل ہیں اب بھی دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ القاعدہ، حقانی نیٹ ورک اور پاکستان لشکر جھنگوی اور دیگر دہشتگرد گروپوں کے علاوہ افغان طالبان کیلئے بھی پاکستان کے اندر اور خطے میں حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے بہترین محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ آپریشن ضرب عضب سے تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کو اگرچہ بھاری نقصان پہنچا ہے تاہم اب بھی کچھ دہشتگرد افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں جامع آپریشن کے بعد سے افغانستان اور پاکستان کے اندر نقل مکانی کرنیوالے طالبان کراس بارڈر روابط کو بہتر بنانے کے لئے کوشا ںہیں۔ پاکستان اور افغانستان ان رابطوں کو کمزور کرنے کے لیے انسداد دہشتگردی اور بارڈر کنٹرول کوششوں کے بارے میں باقاعدگی سے تبادلہ خیال کررہے ہیں۔ پاکستان نیوکلیئر سکیورٹی سربراہی اجلاس کے پراسیس، جوہری دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے گلوبل اقدامات کے حوالے سے تعمیری اور سرگرم حصہ دار ہے۔ برآمدات کنٹرول اور اس سے متعلقہ سرحدی سکیورٹی پروگرام نے حکومت پاکستان کی انفورسٹمنٹ صلاحیت کو پاکستان کسٹمز حکام کی تربیت کے ذریعے مضبوط کیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن