• news

ا مریکہ نے اسامہ کی موت کی تصدیق کیلئے بیٹے کو عدالتی ریکارڈ فراہم کیا: وکی لیکس

ریاض (بی بی سی+ رائٹرز) انٹرنیٹ پر خفیہ راز افشا کرنے والی ویب سائٹ وکی لیکس کے مطابق القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے بیٹے نے امریکی حکومت سے اپنے والد کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ سامنے آیا ہے کہ امریکی سفارتخانے نے اسامہ بن لادن کے بیٹے کی درخواست کا جواب 9 ستمبر 2011ء (اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے چار ماہ بعد) دیا تھا۔ امریکی سفارتخانے کے اس جوابی خط میں وضاحت ملتی ہے کہ اسامہ بن لادن کی موت کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم ڈیتھ سرٹیفیکیٹ کی بجائے جنرل گلین کیسر نے امریکی عدالت کا ریکارڈ فراہم کر دیا تھا جس سے اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس جوابی مراسلے میں بھیجے گئے ریکارڈ کو عربی ترجمے کے ساتھ بھی ارسال کیا گیا تھا۔ جنرل گلین کیسر کی جانب سے عبداللہ بن لادن کو لکھی جانے والی تحریر کے اختتامی الفاظ اس طرح تھے۔ مجھے امید ہے کہ امریکی حکومت کی یہ دستاویزات آپ اور آپ کے خاندان کی رہنمائی کریں گی۔ یہ بات اب تک سامنے نہیں آسکتی کہ عبداللہ بن لادن نے اپنے والد کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا مطالبہ کیوں کیا تھا؟ یہ بھی سامنے نہیں آیا کہ ان دستاویزات تک رسائی کیسے حاصل ہوئی، تاہم تحریری بیان میں ویب سائٹ نے اعلان کیا ہے کہ یمنی سائبر آرمی کے ہیکرز گروپ نے مئی 2015ء میں سعودی وزارتِ خارجہ کے ان خفیہ مراسلوں تک رسائی حاصل کی تھی۔ دیگر مراسلوں میں ایران کے جوہری مذاکرات اور انقلابِ مصر پر بات ہوئی تھی۔ وکی لیکس کا کہنا ہے کہ اس نے سعودی عرب سے آنے والی 60 ہزار سفارتی کیبلز آن لائن شائع کی ہیں آئندہ آنے والے دنوں میں وہ پانچ لاکھ کے قریب دستاویزات حصوں میں تقسیم کرکے شائع کریگی۔ دستاویزات کی فوری تصدیق نہیں ہوسکی، واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفارتخانے نے بھی خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ دستاویزات کی اشاعت وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں پناہ لینے کی تیسری سالگرہ کے موقع پر کی گئی ہے۔ اسانج کے مطابق انہیں خطرہ ہے کہ سویڈن انہیں امریکہ کے حوالے کردیگا، جہاں انکے خلاف امریکی تاریخ میں خفیہ دستاویزات کے بڑے انکشاف پر مقدمہ چلائے جانے کا امکان ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب نے وکی لیکس کی جانب سے 60 ہزار دستاویز جاری کئے جانے کے بعد اپنے شہریوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ان دستاویز کو نہ پھیلائیں جو جعلی بھی ہو سکتی ہیں۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں جاریکردہ دستاویز کی براہ راست تردید نہیں کی۔

ای پیپر-دی نیشن