دہشت گردی بڑھنے کا واویلا ہو رہا ہے مگر اسکی آکسیجن غیر ملکی فنڈنگ نہیں روکی جا رہی : سپریم کورٹ
اسلام آباد(صباح نےوز+ این این آئی + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کےلئے جاری کئے گئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب تک کئے گئے اقدامات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کےلئے اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اٹارنی جنرل عدالت کو آگاہ کریں کہ 7جنوری 2015کو آنے والے نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی روکنے اور دہشت گردوں کو فنڈز کی فراہمی روکنے کےلئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ عدالت نے این جی اوز کی رجسٹریشن کے حوالے سے وفاق اور چاروں صوبوں کے جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیئے اور آج جواب طلب کرلیا ہ۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ این جی اوز کی فنڈنگ اور رجسٹریشن کی نگرانی کےلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ وہ سنجیدہ معاملہ ہے جسے انتہائی غیر سنجیدہ انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا بڑا چرچا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کی فنڈنگ کی نگرانی کر کے اسے روکا جائے گا۔ 6ماہ گزر چکے ہیں، ایکشن پلان پر کوئی عمل نہیں ہو رہا ہر طرف واویلا ہو رہا ہے دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ لیکن اس کی آکسیجن غیر ملکی فنڈنگ جو اس آگ کو بڑھا رہی ہے اسے نہیں روکا جارہا، جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے ملک میں کام کرنے والی این جی اوز کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کا آغاز کیا تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے نے رپورٹ جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ صوبے میں غیر ملکی فنڈنگ کے آڈٹ کا کوئی نظام موجود نہیں تاہم اس حوالے سے قانون سازی کی جائے گی جس پر جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ دہشت گردی سے متاثر خیبر پی کے حکومت کو آئین اور قانون کے بارے میں معلومات ہی نہیں، اسے قانون کا علم ہی نہیں۔ صوبے مےں صحافیوں کی تربیت کے عمل کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے سی پی این ای کی قیادت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے صحافیوں کی تربیت کے لئے عملی اقدامات کئے، صوبائی خود مختاری بلوچستان کا دیرینہ مطالبہ ہے قوم پرستوں نے ملک مےں تمام انتخابات مےں اسی لئے حصہ لیا کہ ان کی سیاسی جدوجہد سے صوبے کو خود مختاری مل جائے1990 تک صوبائی خود مختاری کو غداری سمجھا جاتا تھا ملک کو توڑنے کی سازشیں سمجھا جاتا تھا۔ 1990 تک مضبوط مرکز کو مضبوط پاکستان سمجھا جاتا تھا18 ویں ترمیم کی وجہ سے وزیراعظم کو صدر کے اختیارات ملے ہیں وزیراعلیٰ کو گورنر کے اختیارات ملے ہیں اسمبلیوں کو بااختیار بنایا گیا ہے ملک مےں اقتدار کے غیر آئینی طریقے کو روکا گیا ہے گوادر کی ترقی کیلئے صوبہ بھر کی سیاسی پارٹیوں کو مل کر لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ کراچی کی بلوچ اور سندھی آبادی جیسی حالت بلوچوں کی نہ ہو صوبوں کو اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا صوبائی حکومت کو وفاق سے ملنے والے اختیارات کو درست طریقے سے استعمال کرتے ہوئے صوبائی سطح کے اختیارات کو بلدیاتی حکومتوں تک منتقل کرنا ہوگا سلیم شاہد نے کہاکہ صوبائی حکومت کو ہیومن ریسورسز کو بڑھانا چاہئے محکموں مےں اہل لوگوں کو تعینات کیا جائے بجٹ بناتے وقت عوام کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے صوبے کی کوئی سیاسی پارٹی ترقی کی مخالف نہیں ہے صرف تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد مےں لینے کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے این جی اوز سے متعلق رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہیں جس کے مطابق پاکستان میں بیس ہزار سے زائد غیر سرکاری تنظیمیں فعال ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں سوسائٹی ایکٹ کے تحت 635 جبکہ سوشل ویلفیئر ایکٹ کے تحت 494 رجسٹرڈ این جی اوز کام کر رہی ہیں، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے پنجاب میں کام کرنے والی این جی اوز کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائی جس کے مطابق پنجاب میں اس ایکٹ کے تحت 7516 این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ این جی اوز کی رجسٹریشن اور ریگولیشن ادارہ سوشل ویلفیئر اور بیت المال کرتا ہے۔ سوشل ویلفیئر قانون کے بغیر بھی پنجاب میں کئی این جی اوز کام کر رہی ہیں یہ این جی اوز سوسائٹی ٹرسٹ ایکٹ، کمپنیز آرڈیننس اور دیگر قوانین کے تحت کام کر رہی ہیں ان این جی اوز کو ملکی اور غیرملکی امداد کے ساتھ عوام سے بھی مالی مدد ملتی ہے ان این جی اوز کی نگرانی کی جاتی ہے اور سالانہ آڈٹ بھی کرایا جاتا ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں 10 ہزار سے زائد این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ کے پی کے میں موجود این جی اوز کو غیر ملکی امداد کہاں سے ملتی ہیں، اس کی نگرانی کا کوئی طریقہ کار نہیں، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ صوبہ میں 15 سو سے زائد این جی اوز کام کر رہی ہیں۔
سپریم کورٹ