کراچی میں ہلاکتیں پاور سیکٹر کی ناکامی‘ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کیلئے تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی جائے : آئی ایم ایف
اسلام آباد (عترت جعفری) حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بجلی کے ٹیرف کو ”کاسٹ ریکوری“ کی سطح پر لایا جائے گا۔ صارفین سے اسکی اصل لاگت وصول کی جائیگی۔ حکومت رواں مالی سال میں ریونیو میں کمی آنے کی صورت میں نئے ٹیکس اقدامات کرے گی۔ تین ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے لئے آئندہ کئی سال کا ٹیرف نومبر میں متعارف کرا دیا جائے گا۔ پی آئی اے دسمبر‘ فیسکو مارچ 2016ئ‘ آئیسکو اور لیسکو جون 2016ءمیں نجی تحویل میں دیدی جائیں گی۔ دریں اثناءآئی ایم ایف مشن کے سربراہ ہیرالڈ فنگر نے واشنگٹن سے آڈیو لنک کے ذریعے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس گزاروں کی تعداد بتدریج بڑھے گی۔ پاور کمپنیوں میں گورننس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف نے قرض کی قسط کے اجراءکے ساتھ ہی ”جائزہ رپورٹ“ جاری کردی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال (2015-16) میں جی ڈی پی گروتھ 4.5 فی صد جبکہ افراط زر 4.7 فی صد رہنے کی توقع ہے۔ کرنٹ اکا¶نٹ خسارہ جی ڈی پی کے نصف فی صد کے برابر رہے گا۔ جنوری سے مارچ 2015ءکے عرصہ میں حکومت نے خسارہ ہدف کے حصول میں غیر معمولی کارکردگی دکھائی‘ خاص طورپر ترقیاتی مقاصد کے لئے اخراجات کو روکا گیا۔ حکومت نے رواں مالی سال میں کسٹمز کی مد میں 42‘ جی ایس ٹی 54 انکم ٹیکس 142‘ جی آئی ڈی سی 70 بلین روپے کے ریونیو اقدامات کئے۔ اس طرح جی پی ڈی کے 0.7 فی صد کے مساوی نئے ریونیو اقدامات کئے گئے ہیں۔ حکومت رواں مالی سال میں سیکورٹی امور جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور نقل مکان کرنے والے افراد کی بحالی شامل ہے پر ایک بار کی بنیاد پر 100 ارب روپے خرچ کرے گی۔ وفاقی حکومت نے کے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی کہ اگر ریونیو کی کمی نظر آئی تو مالی سال کے دوران مزید ریونیو اقدامات کرے گی۔ ریونیو میں بہتری لانے کیلئے پہلے مرحلے میں ایک لاکھ 80 ہزار ٹیکس نوٹس جاری کئے گئے ہیں، اس کے جواب میں 55 ہزار افراد نے گوشوارے داخل کرا دیئے گئے۔ ایف بی آر نے ٹیکس قوانین پر موثر عملدرآمد کرانے کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنا دیا تاکہ ٹیکس نادہندگان تک مالیاتی اور پراپرٹی کے سودوں کے ذریعے بھی رسائی حاصل کی جائے۔ ایف بی آر نئی آڈٹ پالیسی بھی بنائے گا۔ آئی ایم ایف صوبائی سطح پر زرعی اور پراپرٹی ٹیکسیشن کو جدید بنانے کی بھی حوصلہ افزائی کرے گا۔ حکومت سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے ضروری قانونی سازی ستمبر تک کرے گی۔ ڈسکون کی کولیکشن اس سال 89 فیصد رہی ہیں جبکہ تکنیکی نقصانات 17.6 فیصد ہیں۔ بجلی پر ٹیرف کو ”کاسٹ ریکوری“ کی سطح پر لایا جائے گا۔ ٹیرف میں ایسی ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی جس سے 2015-16ءمیں جی ڈی پی کے 0.3 فیصد کے مساوی سبسڈیز میں کمی کی جائے گی۔ پاور سیکٹر کے بقایا جات بھی 0.1 فیصد کے مساوی کم ہونگے۔ بجلی کے سیکٹر میں بقایا جات کے لئے اس وقت جی ڈی پی کے 0.2 فیصد کے برابر ہے۔ تین ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کیلئے کئی سال پر مبنی بجلی ٹیرف نومبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔ اس سے نجکاری لسٹ پر موجود کمپنیوں کے ٹیرف سے متعلق غیریقینی کیفیت ختم ہو گی۔ بجلی کے سیکٹر میں وجب الادا وصول رقوم مارچ 2015ءتک 615 ملین روپے ہو گئی تھیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ پاور سیکٹر کی نجکاری کا جو پروگرام طے کیا ہے اس کے مطابق ماڑی پٹرولیم اس سال ستمبر پاک عرب ریفائنری دسمبر، ناردرن پاور جنریشن کمپنی دسمبر پاک سٹیل دسمبر، کوٹ ادو دسمبر، پی آئی اے دسمبر، فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی مارچ 2016ءجامشورو پاور جنریشن کمپنی اپریل 2016ءجبکہ آئسکو اور لیسکو جون 2016ءمیں فروخت کر دی جائیں گی۔ دریں اثناءپاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی آئی ایم ایف کی ٹیم کے سربراہ ہیرالڈ فنگر نے واشنگٹن سے اسلام آباد میں آڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی کارکردگی بہتر ہونی چاہئے۔ ان کمپنیوں کی گورننس بہتر بنائی جائے، نقصانات ختم، ریکوری کو اچھا ہونا چاہئے، تیل کی قیمتیں گرنے سے موقع پیدا ہوا ہے بجلی سیکٹر میں اس کی مدد سے ”کاسٹ ریکوری“ کو یقینی بنایا جائے۔ ایف بی آر ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کیلئے اچھا کام کر رہا ہے تاہم ٹیکس گزاروں میں اضافہ کرنے کا فوری کوئی طریقہ نہیں ہوتا، بتدریج آگے بڑھنا ہوتا ہے، اضافہ کی کوششیں جاری رہنا چاہئیں۔ انہوں نے ٹیکس استثنیٰ ختم ہونے کے باوجود ٹیکس رعایات کی لاگت بڑھنے کا معاملہ پاکستانی ٹیم کے سامنے اٹھایا تھا تاہم ٹیم نے موقف اختیار کیا کہ اقتصادی سروے کے اعداد و شمار میں غلطی ہو گی۔ نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کو کافی حد تک کم کر دیا ہے۔ خط جس پر وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک کے دستخط ہیں کہا گیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے ختم کئے جائیں گے ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھانے کیلئے اصلاحات کی جائیں گی ملک میں کاروباری ماحول بہتر بنایا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی مدد سے معاشی اصلاحات جاری رہیں گی معاشی اصلاحات کے مقاصد کیلئے اضافی اقدامات کرنے کیلئے بھی تیار ہیں اصلاحات کے نئے اقدامات سے پہلے آئی ایم ایف سے مشاورت کی۔ آن لائن کے مطابق ہیرالڈ فنگر نے کراچی میں ہلاکتوں کی وجہ لوڈشیڈنگ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہلاکتیں پاور سیکٹرکی ناکامی کا ثبوت ہیں، پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال خراب ہے، حکومت کو سٹرکچرل اصلاحات پر عملدرآمدکیلئے سیاسی مشکلات کا سامنا ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ترجیحی بنیادوں پر نجی شعبے کے حوالے کیا جائے، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کو پرائیویٹائز کیا جائے، تقسیم کارکمپنیوں کی صلاحیت بڑھائی جائے۔ سرکلر ڈیٹ 615 ارب تک پہنچ چکا ہے، بجلی کے بلوں کی مکمل ریکوری نہیں کی جا رہی۔ پی آئی اے کی نجکاری مشکل مرحلہ ہے، یہ دسمبر تک مکمل ہو سکتی ہے، حکومت نے یقین دلایا ہے کہ سرچارجز ختم کئے گئے توحکومت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کریگی۔ نیپرا ایکٹ میں بھی مناسب ترامیم کی جائیں گی، بجلی کی لوڈشیڈنگ 6 گھنٹے سے زائدکی جا رہی ہے۔ سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن بھی جون 2016ءتک نجی شعبے کو فروخت کردی جائے گی۔
آئی ایم ایف/خط