• news
  • image

کراچی کا اصل کینسر

میں نے تو صاف اعتراف کیا تھا کہ کراچی کی اموات پر لکھنے کے لئے ابتدا میںکوئی نکتہ ذہن میںنہیں آیا مگر ہمارے ساتھی کالم نگار سعید آسی نے بھرپور کالم لکھا اور داد پائی، اس کے بعد میںنے بھی مختلف پہلوئوں سے اس مسئلے کا جائزہ لیا مگر تشنگی پھر بھی باقی تھی۔
کراچی کے مرنے والوںنے ہمارے ضمیر کو کچوکا لگایا ہے اور اگرچہ سندھ میں حکمران پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور انکے وزیر اعلیٰ بھی زمیں جنبد ،نہ جنبد گل محمد کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔مگر وزیرا عظم نے اپنا فرض پورا کیا، وہ کراچی گئے اور انہوںنے اعلان کیا کہ ذمے داروں کا تعین کریں گے۔
یہ تعین تو ہوتا رہے گا اور اس پر حکومتی کارروائی بھی سامنے آ جائے گی مگر لاہور شہر کے پون صدی تک ترجمان رہنے والے رانا نذرالرحمن نے مجھے ایک مکتوب ارسال کیا ہے جس میں ہماری قومی کو تاہی کی نشاندہی کی گئی ہے، ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلام نے جدید تمدن کی بنیاد رکھی، جہاں حضرت عمر ؓ نے سوشل سکیورٹی کا نظام روشناس کرایا وہاں شہروں کے بسانے کا فارمولا بھی حضرت عمر ؓ نے دیا کہ کسی شہر کی آبادی دس لاکھ سے بڑھنے نہ پائے ، اور مزید ضرورت پڑنے پر کہیںنیا شہر بسا لیا جائے۔
یہ نکتہ آفرینی لائق داد ہے، ایک زمانہ تھا کہ لاہور شہر صرف چار دیواری کے اندر تھا اور مزنگ اور ساندہ کی حیثیت مضافاتی دیہات کی سی تھی ، میں بھی ساٹھ کے عشرے میںلاہور آیا تو ماڈل ٹائون ایک الگ تھلگ آبادی تھا، اس کا اپنا نظم و نسق تھا اورا س کی اپنی ٹرانسپورٹ تھی، پھر یہ شہر پھیلتا چلا گیا اور ا ب اس کے حدود اربعے اکا تعین کسی پطرس بخاری کے بس کی بات نہیں، ایک ایک علاقہ پورے شہر کے برابر ہے مگر اس کے لئے صرف ایک تھانہ ہے اور بلدیاتی ادارہ بھی ناپید ہے، تو اس شہر کو کیسے کنٹرول کیا جائے، کراچی کی حالت تو اس ے بھی بد تر ہے، وہ تو کروڑوں کی آبادی پر مشتمل ہے اور دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے۔
اب رانا نذالرحمن کا خط ملاحظہ فرمایئے۔ لکھتے ہیں:صوبہ سندھ میں کراچی، حیدر آباد اور دیگر مقامات پر ایک ہزار سے زائد افراد جن میں عورتیں اور نوجوان بھی شامل تھے، لُولگنے سے لقمۂ اجل بن گئے۔
ہم تمام پاکستانی اس لحاظ سے اسلام سے روگردانی کے مرتکب ہیں کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ شہروں کو بڑے نہ ہونے دینا اور حضرت عمرؓ نے اس کے لئے دس لاکھ کی حد مقرر کر دی تھی۔ غیر مسلموں نے تو اس پر عمل کیا، لیکن ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو آپؐ کے ارشادات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے۔ میرا بیٹا ڈاکٹر سہیل رانا جو امریکہ میں کالوں کی یونیورسٹی کا سربراہ ہے وہ میری لینڈ میں چار کنال کی کوٹھی میں رہتا ہے۔ اس آبادی میں 550 چار چار کنال کی کوٹھیاں ہیں، ہر کوٹھی کے عقب میں بڑے بڑے لان ہیں، جن میں پھل دار درخت اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں، صبح صبح ہر نوں کے غول اپنے بچوں کے ساتھ ان عقبی پارکوں میں آجاتے ہیں سبزیاں اور پھل کھانا شروع کر دیتے ہیں اُن کو پکڑنے کی کوشش کرو تو وہ زقند مارتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں۔ اسی طرح تمام بڑے شہروں واشنگٹن اور نیویارک میں بھی بڑے بڑے پارک ہیں۔ اگر کسی نئی آبادی میں کوئی نئی ہائوسنگ سکیم قائم کی جاتی ہے، تو کاٹے گئے درخت کی پیمائش کی جاتی ہے، اور ڈویلپر کو گارنٹی دینا پڑتی ہے کہ اگر سڑک میں کوئی درخت مجبوراً کاٹنا پڑا تو جب تک اتنا بڑا نیا درخت لگا کر نہ دے ، اس کی گارنٹی وا گزار نہیں کی جائے گی۔
جب مَیں واپڈا ٹائون میں رہتا تھا تو ایک دن جون کی سخت گرمی میں گھر سے نکلا تو لُو کا بھبوکاکا میرے جسم پر پڑا اور مَیں واپس اندر چلا گیا۔ معاً مجھے خیال آیا کہ میرے ملازم ریاض کا اس وقت چارہ کاٹتے ہوئے کیا حال ہو گا، تھوڑی دیر بعد اُس کا بہنوئی اُسے گدھے گاڑی پر لاد کر لایا جو سَن سڑوک کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا تھا، مَیں اسے فوراً جناح ہسپتال لے گیا، وہاں کے ایم ایس میرے بیٹے ظہیررانا کے کلاس فیلو تھے۔ ایم ایس نے کہا کہ ہم اس کا علاج زکوٰۃ سے کردیں گے۔ میرے بیٹے نے کہا کہ ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ اس کا علاج خود نہ کرا سکیں، چنانچہ اُس کا علاج کروایااور وہ تندرست ہو گیا ۔
پاکستان کے بدقسمت عوام کا یہ حال ہے کہ جب امریکہ اس نتیجے پر پہنچاکہ Asbestos Sheetsسے کینسر کی بیماری پھیلتی ہے تو ہماری قوم نے وہ درا ٓمد کر لیا اور پانی کی سپلائی کے لئے نصب کر دیا ، آج کینسر کااموذی مرض اس قدر پھیل گیا ہے کہ یہ جن قابو میں ہی نہیں آتا۔
حال ہی میں ایک عورت کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی، جس کے بازو کے ساتھ ایک بہت بڑا کینسر باہر نکلا ہوا ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ جب تک ایک سال کی عمر اس کی نہ ہو اِس کا یہ کینسر ہم کاٹ نہیں سکتے۔ آج مَیں اپنے معالج ثاقب شفیع شیخ کے پاس اپنے چیک اَپ کے لئے گیا تو مَیں نے اُن سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال سے پہلے ہی وہ بچی مر جائے گی۔
واپس اپنے کراچی والے موضوع کی طرف آتا ہوں، کراچی میں لُو لگنے سے ہلاک ہونے والوں کی تحقیقات کے بعد یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ اس بد نصیب شہرکی تمام سڑکوں سے درخت کاٹ کر وہاں پر لوہے کے پول نصب کر دیئے گئے تاکہ اشتھاری بینر ار ہولڈنگز لٹکائے جا سکیں، جب حکومت اور شہری انتظامیہ کو پیسے کمانے کی فکر لاحق ہو جائے گی تو عوام کا یہی حشر ہوگا، جو کراچی کے بے بس لوگوں کا ہوا۔ تحقیقات اور بھی ہوں گی مگر جب تک شہر بسانے کا بنیادی فارمولہ پس پشت ڈالتے رہیں گے، تب تک انسانی جانوں کو محفوظ بنانا ممکن نہیں۔
یہ تو رہا رانا نذالرحمن کا خط مگر میرا بھی ایمان ہے کہ بڑے شہروں کا انتظام کرنے کے ہم قابل نہیں ہیں۔آبادی بڑھ رہی ہے اور اسکے لئے رہائش بھی چاہئے مگر کیا ضروری ہے کہ لاہور کی رائے ونڈ روڈ، بیدیاں روڈ اور فیروز پور روڈ کو انسانی جنگل میں تبدیل کر دیا جائے، ذرا فاصلے پر نئے شہر بسائے جائیں، انہیں کرچی، لاہور، اسلام ا ٓباد سے الگ پہچان دی جائے اور اس کی انتظامیہ بھی ایل ڈی اے، سی ڈی اے اور کے ڈی اے سے علیحدہ ہو۔
جو ایل ڈی اے اپنی بلڈنگ کو آگ سے نہیں بچا سکتا ، وہ ٹھینگ موڑ تک اپنے آپ کو وسیع کر رہا ہے اور کراچی کا جغرافیہ تو سمندر میں اتر رہا ہے، نت نئے جزیرے کراچی کا حصہ بن رہے ہیں ۔ اس شہر کا انتظام اب کے ڈی اے یا کسی اور ادارے کے بس میںنہیں رہا مگر ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور باقی ملک کو تو منظم طور پر بسانے کی تدبیر کر لینی چاہئے،تاکہ مستقبل کے نقصانات سے بچ سکیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن