قیدیوں کی حالت زار: لگتا ہے صوبائی حکومتوں کو مقدمہ میں کوئی دلچسپی نہیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت +صباح نیوز) سپریم کورٹ نے ملک بھر کی جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران وفاق اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کے لیے موجود جیل مینوئل پر عملدرآمد کے لیے اقدامات بارے تفصیلی رپورٹ دس روز بعد عدالت میں جمع کرائی جائے۔ عدالت نے صوبائی ہوم سیکرٹریز کے پیش نہ ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے صوبائی حکومتوں کوا س مقدمہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمشن سرور خان نے عدالت کو بتایا کہ ملک بھر کی جیلوں میں ججوں کے دوروں کے باوجود بھی قیدیوں کی حالت ٹھیک نہیں ہے اور نہ ہی صوبوں کی طرف سے اس ضمن میں کیے گئے اقدامات بارے لاء اینڈ جسٹس کمشن کو کوئی قابل عمل رپورٹس موصول ہو سکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف کاغذی کارروائی کی گئی ہے۔ جبکہ مانیٹرنگ اور موازنے کا بھی طریقہ کار بھی صوبوں نے طے نہیں کیا۔ جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی طرف سے قیدیوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے حالانکہ یہ وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ صوبائی ہوم سیکرٹریز نے عدالتی حکم کے باوجود لاء اینڈ جسٹس کمشن کے اجلاس میں شرکت نہیں کی جو قابل تحسین نہیں ہے۔ عدالت نے کمرہ عدالت کے اندر موجود صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے لاء افسران کو ہدایت کی کہ وہ عدالتی سماعت کے بعد لاء اینڈ جسٹس کمشن کے دفتر میں بیٹھ کر جیل مینوئل پر عملدرآمد کا لائحہ عمل واضح کریں اور 14جولائی تک اقدامات بارے رپورٹ تیار کر کے عدالت میں جمع کروائیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ صوبائی حکومتیں اس مقدمہ میں دلچسپی نہیں لے رہیں ،عدالت نے چیف سیکرٹری کو طلب کیا تھا لیکن وہ نہیں آئے کیا وہ بڑے افسر ہیں جو عدالت کا حکم نہیں مانتے، عدالت نے صوبوں میں جیل مینوئل پر عمل نہ ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس مینوئل پر عمل کرنا حکام کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ تنخوا ہ وصول کرتے ہیں اس مقدمہ میں تاریخ پر تاریخ نہیں دے سکتے۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ نے بھی کوئی کام نہیں کیا اور ہوم سیکرٹری سندھ اس مقدمہ میں تعاون نہیں کر رہے ۔ لاء اینڈ جسٹس کمشن کو عدالت نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے اختیار دیا ہے لیکن ہوم ڈیپارٹمنٹس کی طرف سے معاملہ کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ عدالت نے ہوم سیکرٹری سندھ کی تاویلات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اب تو جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ سلوک کی مانیٹرنگ کی جاسکتی ہے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جاسکتے ہیں۔ حکومت کے پاس سیف سٹی پراجیکٹ کے لیے پیسے ہوتے ہیں توان منصوبوں کے لیے کیوں نہیں، وفاقی حکومت کے سنیئرلاء ایڈ وائزر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا۔ قیدیوں کے لیے پکائی گئی دال میں دال سے زیادہ گھی نظر آرہا تھا قیدی بھی ڈر کے مارے بات نہیں کرسکتے کیونکہ بعد میں ان کے ساتھ جو حشر ہوتا ہے وہی جانتے ہیں۔ آئی جی جیل خانہ جات پنجاب میاں فاروق نے بتایا کہ چیف جسٹس لا ہور ہائیکورٹ، ڈسٹرکٹ سیشن جج اور ایڈیشنل سیشن جج باقاعدگی سے جیلوں کے دورے کرتے ہیں۔ وفاق کے لاء افسر نے عدالت سے درخواست کی کہ وفاقی ٹیم کے اچانک دورے کی اجازت بارے عدالت آبزوریشن دے تو جسٹس جواد نے کہا کہ قوانین کے مطابق آپ جیلوں کے اچانک دورے کر سکتے ہیں لہذا مقدمہ کی مزید سماعت 14جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔