• news

انتخابات 2013ءمبینہ دھاندلی کیس : انکوائری کمشن نے کارروائی مکمل کر لی‘ محفوظ

اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت +بی بی سی+ ایجنسیاں) چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 2013ءکے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے تین رکنی کمشن نے کارروائی مکمل کر کے رائے محفوظ کر لی ہے۔ تاہم کمشن نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کب تک اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گا۔ کمشن کے 86 روز کے دوران 39 اجلاس ہوئے جس میں پارلیمنٹ میں موجود متعدد سیاسی جماعتوں نے کارروائی میں حصہ لیا۔ گزشتہ روز وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ تحریک انصاف کسی طور پر بھی ان انتخابات میں منظم دھاندلی کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی انتخابات تکنیکی غلطیوں سے پاک نہیں ہوتے لیکن ا±نہیں کسی طور پر بھی منظم دھاندلی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ دھاندلی کے ٹھوس شواہد بھی پیش نہیں کئے جا سکے اور محض مفروضوں پر دھاندلی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ کمشن کے سربراہ نے الیکشن کمشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ پنجاب میں ریٹرننگ افسروں کو یہ ذمہ داری کیوں دی گئی کہ وہ بیلٹ پیپروں کی چھپائی کے لیے اپنی تجاویز دیں، جبکہ دیگر صوبوں میں الیکشن کمشن نے رجسڑڈ ووٹروں کے حساب سے بیلٹ پیپر چھاپے تھے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ پنجاب میں بھی رجسڑڈ ووٹروں کے حساب سے بیلٹ پیپر چھاپے گئے تھے۔ عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے لیکن ان کو کسی طور پر بھی منظم دھاندلی کے زمرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وکلا اب اپنی چھٹیاں منائیں جبکہ کمشن اپنا کام جاری رکھے گا۔ الیکشن کمشن کے وکیل نے کہاکہ پی ٹی آئی اپنی طرف سے لگائے گئے 12 الزامات میں سے ایک بھی ثابت نہیں کر سکی۔ انہوں نے الیکشن عمل کے دوران خامیوں کو تسلیم کیا اور کہا کہ ریکارڈ کو محفوظ رکھنا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے الیکشن کمشن کو ان خامیوں پر قابو پانے کے لئے اقدامات کرنے چاہئےں۔ اردو بازار اور پرائیویٹ پرنٹنگ پریس سے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں۔ تحریک انصاف کے وکیل عبد الحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ پنجاب کے 49 قومی اسمبلی کے حلقوںکے لئے صوبائی الیکشن کمشنر نے براہ راست اضافی بیلٹ پیپر جاری کئے اور ایسا انہوں نے ڈائریکٹر جنرل الیکشن کمشن کی ہدایت پر کیا تھا۔ شمالی پنجاب کو چھوڑ کر باقی پورے صوبے میں مخصوص نشستوں کا انتخاب کیا گیا تھا پندرہ حلقے ایسے تھے جہاں پر 20 سے 22 ہزار اضافی بیلٹ پیپرز فراہم کئے گئے یہ سارا کچھ 26 اپریل کے بعد ہوا پاکپتن، وہاڑی ،مظفر گڑھ ، لیہ اور ڈیرہ غازی خان میں 12 سے 14 ہزار اضافی بیلٹ پیپرز دیئے گئے انہوں نے خیبرپی کے میں انتخابی عمل کو درست قرار دیا الیکشن کمشن کے وکیل نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کے حوالے سے دو فہرستیں تھیں ایک 21 اپریل کو پرنٹنگ پریس کو فراہم کی گئی اور 26 اپریل کو نظر ثانی شدہ فہرست دے دی گئی بیلٹ پیپرز کی تعداد کا تعین ایک فارمولے کے تحت تھا ہر پولنگ بوتھ کے لئے بیلٹ پیپرز کی ایک کتاب اضافی چھپنی تھی ہر کتاب میں سو بیلٹ پیپرز ہوتے ہیں نظرثانی شدہ فہرست آنے سے پہلے جن حلقوں کے لئے بیلٹ پیپرز شائع ہو گئے تھے انہیں اسی طرح بیلٹ پیپرز فراہم کیے گئے اور جن کے شائع نہیں ہوئے تھے انہیں نظر ثانی شدہ فہرست کے تحت بیلٹ پیپرز فراہم کیے گئے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ این اے 154 لودھراں کے لئے پہلی فہرست کے مطابق 4 لاکھ 6 ہزار بیلٹ پیپرز چھاپنے کا تخمینہ تھا جبکہ 26 اپریل کی فہرست کے مطابق ریٹرننگ آفسر نے تین لاکھ 85 ہزار بیلٹ پیپرز کی ڈیمانڈ کی چونکہ پہلے ہی بیلٹ پیپرز چھپ گئے تھے اس لئے چار لاکھ چھ ہزار ہی ریٹرننگ آفسر کو دیئے گئے۔انہوں نے انکوائری کمشن کی طرف سے اٹھائے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں حلقوں کی تعداد زیادہ تھی اس لیے مرکزیت ختم کر کے ریٹرننگ افسروں کو فیصلہ سازی میں شامل کیا گیا تاکہ بہتر انتظامات ہوں یہ درست ہے کہ تین صوبوں میں صوبائی الیکشن کمشن اور پنجاب میں ریٹرننگ افسروں کی مشاورت کے ساتھ بیلٹ پیپرز کی تعداد کا تعین ہوا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے سوال اٹھایا کہ دو فہرستیں کیوں آئیں اس پر سلمان اکرم نے کہا کہ 21 اپریل کی فہرست ابتدائی تخمینہ تھا جبکہ 26 اپریل کو ریٹرننگ افسروں نے راﺅنڈ اپ کر کے فارمولے کے مطابق بیلٹ پیپرز کا تعین کیا نظر ثانی شدہ فہرست میں 70 حلقوں کے لیے بیلٹ پیپرز کی تعداد ابتدائی تخمینے سے کم ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس سارے عمل کی نگرانی الیکشن کمیشن کر رہا تھا اور الیکشن کمیشن اضافی بیلٹ پیپرز کے معاملے سے آگاہ تھا جس پر سلمان اکرم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے سنٹرل سیکرٹریٹ کو تمام معلومات فراہم کی جاتی تھیں۔ امیر ہانی مسلم نے کہا کہ این اے 125 میں تو نظر ثانی شدہ فہرست سے بھی 50 ہزار اضافی بیلٹ پیپرز کا فرق آیا اس کے جواب میں سلمان راجہ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر سید شبر عباس بخاری کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے بیلٹ پیپرز کی تعداد کو برابر کرنے کے لیے یہ اضافہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پولنگ بوتھ کی سطح پر بیلٹ پیپرز کا تعین آئینی ضرورت ہے ہر ایک ووٹر کے لیے ووٹ کا انتظام کرنا ہوتا ہے اگر ایک حلقہ میں 1280 ووٹ ہیں تو یہاں پر 2 پولنگ بوتھ ہوں گے ایک خواتین اور ایک مردوں کے لیے دونوں بوتھ میں اگر رجسٹر ووٹر 640 اور 640 ہیں تو یہاں 14 کتابیں چھاپی جائیں گی ریٹرننگ افسروں نے جو کیا قانون اور آئین کے مطابق کیا۔ 1970ءسے یہی فارمولا استعمال ہوتا آیا ہے کہ بیلٹ پیپرز کی تعداد کا تعین پولنگ بوتھ کے حساب سے کیا جاتا ہے اور بیلٹ پیپرز پولنگ سٹیشن کے حساب سے بھیجے جاتے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تفریق کیوں ہے؟ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر پولنگ بوتھ کے حساب سے بیلٹ پیپرز چھاپے گئے تو اس حساب سے بھیجے جانے چاہئیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ اضافی بیلٹ ریٹرننگ افسر اپنے پاس رکھتا ہے اور جب ضرورت ہو تو فراہم کیے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس ضمن میں کوئی ہدایات تھیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ریٹرننگ افسران اپنی سمجھ بوجھ سے فیصلہ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پورے ملک کے لیے ایک ہی معیار تھا تو سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پورے ملک کے لیے ایک ہی معیار تھا سلمان اکرم نے فارم 15 کے حوالے سے دلائل کا آغاز کیا توچیف جسٹس نے کہا کہ اضافی بیلٹ پیپرز ریٹرننگ افسران کے اپنے پاس رکھنے کا جواز کیا ہے۔ الیکشن کمشن فارم 15 کا ریکارڈ اپنے پاس کیوں نہیں رکھا ضلع کے جج تبدیل ہوتے رہتے ہیں یہ ریکارڈ ثبوت کے لیے ہوتا ہے اگر ضرورت پڑنے پر موجود نہیں تو پھر رکھنے کی کیا ضرورت ہے اس کے پیچھے عقلی جواز ہونا ضروری ہے سلمان اکرم نے تسلیم کیا کہ فارم 15 الیکشن کمشن کے پاس ہی ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمشن سامان محفوظ رکھنے کے لئے اپنا مال خانہ کیوں نہیں بناتا ریکارڈ محفوظ رکھنا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے مال خانے میں رکھنے کے بعد بھی سامان کا تحفظ الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمشن کی طرف سے اس ضمن میں زمین حاصل کی جارہی ہے لیکن اس میں فنڈز کا معاملہ ہے پارلیمنٹ اور حکومت کی بھی کچھ ذمہ داری ہے چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی ذمہ داری الیکشن کمشن کی ہے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کے لئے پچاس ساٹھ ہزار کا عملہ نہیں رکھا جا سکتا ۔پوری دنیا میں سرکاری ملازمین کے تعاون سے الیکشن کرایا جاتا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ 1984ءسے الیکٹرانک ووٹنگ ہو رہی ہے ہمارے ہاں ایسا کیوں ممکن نہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ جبکہ بائیو میٹرک سسٹم میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ 20 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز بائیو میٹرک ڈیٹا موجود نہیں انہوں نے کراچی کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کیا یہ الزامات سیاسی نوعیت کے ہیں الیکشن زمانہ امن کا سب سے بڑا آپریشن ہوتے ہیں الیکشن کمشن کبھی جانبدار نہیں ہوتا۔
انکوائری کمشن

ای پیپر-دی نیشن