• news

نیشنل ایکشن پلان پر ٹکے کا کام نہیں ہو رہا : سپریم کورٹ ....کالعدم تنظیموں کی مانیٹرنگ رپورٹ این جی اوز کی تعداد اکاﺅنٹس کی تفصیلات طلب

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ نیٹ نیوز+ ایجنسیاں) ملکی و غیر ملکی این جی اوز کی رجسٹریشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کرانے میں غیر سنجیدہ ہیں، عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکی جائے، جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے اس حوالہ سے رپورٹ پیش کی جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ قومی ایکشن پلان پر پانچوں حکومتیں متحرک ہوئی تھیں لیکن پھر سارا نظام جمود کا شکار ہوگیا ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں قومی ایکشن پلان پر عمل در آمد کرانے میں غیر سنجیدہ ہیں، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے قومی ایکشن پلان انگریزی میں لکھا گیا، خیبر پی کے میں رجسٹرڈ این جی اوز کی تعداد دس ہزارہے، لیکن کسی کو یہ معلوم نہیںکہ غیر رجسٹرڈ این جی اوز کی تعداد کتنی ہے؟ عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نئے بجٹ میں نیکٹا اور این سی ایم سی کیلئے پندرہ کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ پندرہ کروڑ روپے تو وزیر اعظم ہاﺅس کا سالانہ خرچ ہوگا، وزیراعظم ہاﺅس کا خرچہ بڑھا دیا گیا دہشت گردی کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ داعش کو کالعدم تنظیم کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ، اگر کوئی داعش کو پچاس کروڑ روپے کے فنڈز دے دے تو حکومتوں کے پاس اسے چیک کرنے کا کوئی طریقہ کار ہی موجود نہیں ہے ،پاکستان حالت جنگ میں ہے، فاضل عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو این جی اوز کی تعداد اور اُن کے اکاﺅنٹس سمیت تمام تفصیلات 22 جولائی تک پیش کرنے کا حکم دیا۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے وفاق سمیت چاروں صوبوں سے این جی اوز کی تعداد اور اکاو¿نٹس کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ عدالت نے چاروں صوبوں سے کالعدم تنظیموں کی مانیٹرنگ کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ سپریم کورٹ میں این جی اوز رجسٹریشن کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے پوچھا کہ نیشنل ایکشن پلان کا آغاز ہوئے چھ ماہ ہوگئے۔ این جی اوز کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ¾نیکٹا کےلئے چھ کروڑ روپے بجٹ مختص کیا گیا جو کچھ بھی نہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت این جی اوز کی مانیٹرنگ کے لیے کام کر رہی ہے۔ مشکوک این جی اوز کا فرانزک آڈٹ ہوگا۔جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا تو حکومت کہہ دے کہ کاغذی کارروائی ہے۔ کیا صوبائی حکومت نے درست کام نہ کرنے پر این جی اوز کو نوٹس جاری کیا۔جسٹس جوادایس خواجہ نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان بنا کر اس پر عمل نہ کرنا عوام کے ساتھ بڑا مذاق ہے اس پلان کے تحت ایک ٹکے کا بھی کام نہیں ہو رہا ۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنا تھی تاہم این جی اوز کو اب بھی ملکی اور غیر ملکی فنڈنگ ہو رہی ہے۔ 6 ماہ گزر گئے این جی اوز کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نااہلی اور غیر مستعدی میں صوبائی حکومتوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ مشکوک این جی اوز کی فنڈنگ رکے گی تو دہشت گرد خودبخود مر جائیں گے، اگر ہم حالت جنگ میں ہیں تو این جی اوز کی فنڈنگ کے معاملات کو دیکھنا ہوگا۔سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں کے حکام سے ا±ن کے علاقوں میں کام کرنے والی کالعدم اور غیر سرکاری تنظیموں کے کام پر نظر رکھنے سے متعلق کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے لیے فنڈنگ آکسیجن کا کام دیتی ہے لیکن بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے ان کی فنڈنگ روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ نے ریمارکس میں کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی ایکشن پلان ضرور بنایا گیا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ کاغذوں تک ہی محدود رہا ہے جبکہ دہشت گردی کی وارداتیں بدستور جاری ہیں۔ اس ایکشن پلان کو اردو میں شائع نہ کرنا بظاہر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبہ خیبرپی کے کے عوام یہ توقع رکھ رہے تھے کہ نئی حکومت آنے کے بعد ا±ن کی جان و مال کی حفاظت کے لیے بہتر اقدامات کیے جائیں گے لیکن ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ جسٹس مقبول باقر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اگر حکومت کے علم میں یہ بات آئے کہ کوئی غیر سرکاری تنظیم قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کام کر رہی ہے تو اس کے متعلق کیا ایکشن لیا جاتا ہے کیا کسی صوبائی حکومت نے کسی این جی او کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس این جی او کا فرانزک آڈٹ کرایا جاتا ہے جس کے بعد کارروائی کیجاتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت غیر سرکاری تنظیموں کی کارروائیوں کو مانیٹر کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری تنظیموں کو فنڈز ملتے ہیں لیکن ان کی فنڈنگ کو مانیٹر کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ۔ اگر ملک حالتِ جنگ میں ہے تو پھر ان غیر سرکاری تنظیموں کو ملنے والے فنڈز کے معاملات کو بھی دیکھنا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے اس سے پہلے ایک رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ قانون نافد کرنے والے اداروں نے غیر قانونی طریقے سے رقم بھیجنے یا منگوانے پر ڈھائی سو کے قریب مقدمات درج کیے ہیں جبکہ اس ضمن میں دو ارب روپے سے زائد کی رقم بھی برآمد کی گئی ہے۔ ا±نھوں نے کہا کہ تین ہزار سے زیادہ ایسے افراد کی شناخت ہوئی ہے جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان اور دیگر کالعدم جماعتوں سے ہے۔ ا±نھوں نے کہا کہ شدت پسندی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت نو خصوصی عدالتیں بنائی گئی ہیں اس کے علاوہ ابھی تک 175 افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔ اس مقدمے کی سماعت چھ جولائی تک ملتوی کردی گئی۔دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ این جی اوز کی مانیٹرنگ ہوگی تو فنڈنگ کا درست استعمال ہوگا۔ عدالت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نیکٹاو دیگر اداروں کے لئے وضع کردہ بجٹ تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ اب تک کتنی این جی اوز پر پابندی لگائی گئی ۔ کتنے کے اکاﺅنٹس منجمد کئے گئے کتنے ملزموں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ نیشنل ایکشن پلان بنا کر چپ کر کے بیٹھ گئی اور داعش جیسی تنظیم پر تاحال کوئی پابندی تک نہیں لگائی گئی ۔ نیشنل ایکشن پلان بنا کر اس پر عمل نہ کر کے قوم کے ساتھ بہت بڑا مذاق کیا گیا ہے ۔ صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا ہے اگر ریاست حالت جنگ میں ہے تو پھر ہمیں تمام تر معاملات سے جنگی بنیادوں پر نمٹنا ہو گا ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لگتا ہے کہ حکومتوں کو دہشت گردوں سے ہمدردی ہے کہ ابھی تک نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ، آپ کو آپ کے حال پر اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ ہارون رشید کیس میں اٹارنی جنرل سلمان بٹ پیش ہوئے تو جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کا کام ہم نہیں کریں گے ۔ پہلے کیس میں کچھ پیش رفت بتائیں ۔کیا تمام صوبے موجود ہیں ۔ اجلاس کا کیا بنا تھا حکومتوں کو اس معاملے کا مکمل ادراک اور احساس کرنا چاہئے ۔ سرکار نے اسے لاگو تو کرنا ہے ۔ یہ ایک معاملہ ہے ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے منی چینجز ، ہنڈی کے حوالے کے کے پی کے میں 35 مقدمات درج ہیں ۔ 41 ملزمان گرفتار ہوئے ہیں جسٹس جواد نے کہاکہ یہ بھی کالم بنایا جائے کہ ان افراد کا کن این جی اوز سے تعلق رکھتا ہے آپ کا نیشنل ایکشن پلان کہتا ہے کہ جو بھی دہشت گردی کرتا ہے یا معاونت کرتا ہے اس کے خلاف کارروائی ہو گی ۔ان این جی اوز کا خالی معاملہ ہنڈی تو نہیں ہو سکتا آپ یہ بتائیں کہ دہشت گردی کے حوالے سے کیا اقدامات کئے بعض این جی اوز کو غیر ملکی فنڈنگ ہو رہی ہے مقامی سطح پر بھی فنڈنگ ہو رہی ہے اس کا بھی تدارک کرنا ہو گا ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنا ہمارا کام نہیں ہے ۔یہ اللہ کی طرف سے ہوا ہے کہ ہارون رشید جعلی چیک میں پھنس کر یہاں آگیا ۔ 3 کروڑ روپے ادھر سے اُدھر کئے گئے ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کسی کو پتہ ہی نہیں کہ پیسے کے کس پاس ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اور بھی بہت سے کام ہو رہے ہیں عید پر کھالیں بھی اکٹھی کی جائیں گی ۔ این جی اوز پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس باقر نے کہا کہ سوشل میڈیا پر دیکھیں کہ کون لوگ چھائے ہوئے ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ آپ بتائیں کہ سال میں آپ نے کیا کیا ۔ نیشنل ایکشن پلان بنا کر رکھ دیا گیا ہے اس پر کوئی عمل کرنے کو تیار نہیں ۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں عوام کو بتلا دیں کہ ہم نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کرنا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے پاس معاملہ دھوکے بازی کا ہے ۔ 6 اپریل کو مقدمہ سامنے آیا ۔جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ باہر سے پیسے آتے ہیں ان کو روکنے میں تمام تر صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اتنی بڑی چیز ہورہی ہے جس میں سب سے زیادہ متاثر خیبر پی کے ہو رہا ہے مگر انہیں بھی رقم کے آنے کا پتہ نہیں کہ یہاں کہاں سے آ رہے ہیں ۔مانیٹرنگ کا نظام وضع کرنا ہو گا ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ قانون پر سرے سے عمل درآمد ہی نہیں ہو رہا ہے ۔ جسٹس جواد نے کہاکہ آپ سب ہمیں ہر تاریخ پر کہتے ہیں کہ عمل کر دیں گے ۔ سارے صوبے ہی ایسے بیٹھے ہوئے ہیں جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ کو اپنے حال پر اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اگر آپ کارروائی کرتے تو ادھر ادھر سے آنے والی رقم کا بھی پتہ چل جاتا اور جو صحیح اور اصل پیسہ آتا ہے اس کا استعمال بھی بہتر ہو سکتا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ خیبر پی کے میں 24 ضلعے ہیں ہر ضلعے میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ہیں ۔ 4800 ملازمین ہو سکتے ہیں سرکاری تنخواہیں لیں گے ۔ ریٹائر ہونے کے بعد وہ پنشن لیں گے ۔ کیا کسی ایک اونر کو بھی نوٹس ہوا ہے یا کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے ۔ خیبر پی کے نے بتایا کہ تمام تر صورت حال بتلا دی ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ حکومتی سنجیدگی کا یہ حال ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرانا چاہتے ہیں ۔مگر نیکٹا کے لئے ایک دھیلا بھی بجٹ میں نہیں رکھا ۔جسٹس جواد نے کہا کہ 2013 سے پیسہ پڑا ہوا ہے آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ پیسہ کہاں خرچ کرنا ہے ۔
اسلام آباد (صباح نےوز) حکومت کی طرف سے نےشنل اےکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے سپرےم کورٹ مےں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب تک مجموعی طور پر 517 دہشت گرد ہلاک، 912 گرفتار ہوئے، 651 افراد کو مفرور قرار دےا جاچکا ہے۔ 53 ہزار 956 آپرےشنز مےں 60ہزار 61افراد گرفتار کئے جاچکے ہےں جن مےں سے 740خطرناک دہشت گرد شامل ہےں، تحرےک طالبان اور اس سے منسلک 3ہزار 462افراد کی شناخت کرلی گئی ہے۔یہ رپورٹ اٹارنی جنرل سلما ن اسلم بٹ نے این جی اوز کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالتی حکم پرجمع کرائی ہے اس ادارے کو موصولہ رپورٹ کے مطابق پانچ ستمبر 2013 کو کراچی میں شروع ہونے والے آپرےشن کے بعد شہر میں دہشت گردی کے واقعات مےں نماےاں کمی آگئی ہے، ٹارگٹ کلنگ مےں 44فےصد، قتل کے واقعات میں37، دہشت گردی میں 46اور ڈاکہ زنی مےں23 فےصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ کراچی سے 688دہشت گرد، 610 مفرورآٹھ ہزار 999 مطلوب افراد، 117اغوا کار اور 1695 قاتل گرفتار کئے گئے ہےں اور 15612ہتھےار پکڑے بھی گئے ہےں۔ رپورٹ کے مطابق تےن مہےنے مےں 175افراد کو سزائے موت دی گئی، دہشت گردوں کے ٹرائل کے لئے ملک بھر مےں نو سپےشل کو رٹس قائم کردی گئی ہےں،صوبوں نے ان عدالتوں کے لئے مجسٹرےٹ نامزد کردیئے ہےں اور ٹرائل کا عمل شروع ہوگےا ہے، فرقہ وارےت اور تشدد کے 294مقدمات کا انتخاب بھی کردےا گےا ہے خےبر پختون خواہ کے پانچ اور بلوچستان کے 53مقدمات ان عدالتوں کو بھےج دیئے گئے ہےں۔ خےبر پی کے مےں 2 لاکھ 60 ہزار34 ہتھےار جبکہ 280اعشارےہ پانچ کلو گرام گولہ بارود برآمد کےا گےا۔ 14ہزاراےک سو، سندھ مےں 3ہزار 441 بلوچستان مےں 24 ہزار 6سو ہتھےار پکڑے گئے ہےں جبکہ سندھ مےں بم بنانے کے تےن کارخانے دو کراچی اور اےک شکار پور مےں تباہ کئے گئے ہےں۔ نفرت انگےز تقارےر پر ملک بھر مےں اےک ہزار 776مقدمات درج کئے گئے ہےں جن مےں سے پنجاب مےں اےک ہزار 443، سندھ مےں 145، خےبر پی کے مےں 106،بلوچستان مےں 29،گلگت بلتستان مےں اےک،اسلام آباد وفاقی دارلحکومت مےں چھ اور آزاد کشمےر مےں 46مقدمات درج ہوئے ہےں۔ نفرت انگےز اور اشتعال انگےز تقارےر پر اےک ہزار 799افراد گرفتار،اےک ہزار 512مواد ضبط اور 71دکانےں سےل کی گئی ہےں۔ پنجاب، آزاد کشمےر اور اسلام آباد کے مدارس کی سو فےصد جانچ پڑتال کی جاچکی ہے، خےبر پی کے اور بلوچستان مےں جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے، پنجاب مےں دو، سندھ مےں پندرہ اور کے پی مےں 13مشکوک مدارس کو بند کےا گےا ہے۔ سندھ مےں 72غےر رجسٹرڈ مدارس بھی بند کئے گئے۔ملک بھر کے 185مدارس کو بےرون ملک سے فنڈز ملتے ہےں جن مےں سے 147پنجاب، اےک سندھ،سات خےبر پختون خواہ اور تےس بلوچستان مےں واقع ہےں، مدارس مےں اصلاحات کے لئے اےکشن پلان تےار کےا جارہا ہے۔ مزےد کہا گےا ہے کہ 225تنظےموں اور کمپنےوں کو کالعدم کےا گےا ہے۔
اٹارنی جنرل رپورٹ

ای پیپر-دی نیشن