وکلا عدالتی نظام کا حصہ ہیں، انکی معاونت کے بغیر یہ آگے نہیں بڑھ سکتا : چیف جسٹس ہائیکورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس منظور احمد ملک نے کہا ہے کہ موجودہ دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے فائدہ حاصل کئے بغیر انصا ف تک رسائی کے عمل کو مؤثر نہیں بنایا جا سکتا۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میںچیف جسٹس نے صوبے کی ضلعی بارز ایسویسی ایشنز کے صدور کو کمپیوٹرز اور لاء سائٹ تک رسائی کے لئے پاس ورڈ فراہم کئے۔ جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود بار ایسویسی ایشنز کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کیلئے چیف جسٹس کے صوابدیدی فنڈز کو بار ز کی فلاح کیلئے مختص کر دیا گیا ہے۔ پہلے بار ایسویسی ایشنز کو قانونی کتب فراہم کی جاتی تھیں مگر جدید دور کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے لاء سائٹ تک رسائی دیدی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء عدالتی نظام کا حصہ ہیں اور وکلاء کی معاونت کے بغیر عدالتی نظام کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ دونوں ادارے ملکر ہی انصاف کی فراہمی کے عمل کو آگے بڑھائیں گے تو حقیقی انصاف میسر آئیگا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے بھی بار ایسویسی ایشنز کے عہدیداروں کو کمپیوٹرز اور لاء سائٹ تک رسائی کے پاس ورڈز فراہم کئے۔جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس منظور اے ملک نے کہا ہے کہ تین ماہ میں 4 ہزار کیس نمٹائے۔ بہاولپور، ملتان، راولپنڈی بنچز میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کم ہوئی۔ ماضی میں دادا کیس دائر کرتا تو پوتا فیصلہ سُنتا تھا۔ مقدمات کی تیزی سے سماعت شروع کی ہے۔ اگلے 2 سال میں کیسز کی تعداد ایک لاکھ تک لے آئیں گے۔ 2007ء تک دائر 72 فیصد مقدمات نمٹا دئیے۔ عدالت عالیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دائر کردہ مقدمات کی نسبت نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد زیادہ ہے۔ 30 مارچ کو عہدہ سنبھالنے کے وقت زیر التوا مقدمات کی کل تعداد ایک لاکھ 56 ہزار 293 تھی۔ گزشتہ تین ماہ میں 48 ہزار 359 نئے مقدمات دائر ہوئے جبکہ محض 70 دنوں میں 57 ہزار 678 مقدمات نمٹائے گئے اور عدالت عالیہ میں زیر التوا مقدمات کی موجودہ تعداد ایک لاکھ 46 ہزار 974 ہے جس ظاہر ہوتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر دائر کردہ 690 مقدمات کے مقابلے میں اوسطاً 824 مقدمات روزانہ نمٹائے گئے۔