• news

150 میگا کرپشن کیسز: نواز‘ شہباز‘ زرداری‘ گیلانی ‘ راجہ پرویز‘ شجاعت کے نام بھی شامل

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی+ بی بی سی) سپریم کورٹ میں نیب کی جانب سے 150 میگا کرپشن کیسز کی پیش کی گئی فہرست کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، چوہدری شجاعت حسین، پرویز الٰہی، سابق صدر آصف زرداری ودیگر کے نام بھی شامل ہیں تاہم سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے جمع کروائی جانیوالی رپوٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کر تے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ عدالت نے نیب سے تفصیلی رپورٹ13 جولائی تک طلب کرلی۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ صرف اِدھر اُدھر آنے جانے سے کام نہیں چلے گا، عدالت میں یقین دہانی کروائی جاتی ہے اسکے باوجود نیب کام نہیں کرتا۔ پیش کردہ رپورٹ میں بہت سی تفصیلات کے کالم موجود نہیں، مذکورہ مقدمات میں پیشرفت اور تحقیقات کرنیوالے نیب افسران نے جو غفلت کا مظاہرہ کیا ہے ان کیخلاف کیا کارروائی کی گئی؟ کیا انکے خلاف نیب آرڈیننس کے سیکشن 30 کی کارروائی عمل میں لائی گئی؟ عدالت کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگایا جائے، عملی اقدمات ہونے چاہئیں۔ انکا کہنا تھا کہ عدالت کو ہوجائیگا، ہوجائیگا کے لارے نہ لگائے جائیں۔ رپورٹ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل وقاص قدیر نے عدالت میں پیش کی، جس میں میگا کرپشن سے متعلق 150 مقدمات بارے بتایا گیا کہ ،مالی بے ضابطگیوں میں 22 کیسز میں انکوائری، 13 انویسٹی گیشن کے مرحلے میں جبکہ 15 کیسز میں ریفرنس دائر کئے گئے ہیں۔ اراضی سکینڈل میں 29 انکوائری کے مرحلے میں ہیں، 13 سکینڈلز کی انویسٹی گیشن چل رہی ہیں اور اس حوالے سے، 8 کیسز میں ریفرنس دائر کیے گئے۔اختیارات کے ناجائز استعمال میں 20 کیسز کی انکوائری، 15 انویسٹی گیشن کے مرحلے میں جبکہ اس حوالے سے، 15 کیسز میں ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔ 50 کیسز مالیاتی بے ضابطگیوں، 50 کیسز اراضی اسکینڈل اور 50 اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ہیں۔ مالی بے ضابطگیوں میں 22 کیسز میں انکوائری تحقیقات، 13 انویسٹی گیشن تفتیش کے مرحلے میں جبکہ 15 کیسز میں ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔ اراضی سکینڈل میں 29 انکوائری کے مرحلے میں، 13 انویسٹی گیشن کے مرحلے میں اور، 8 کیسز میں ریفرنس دائر کئے گئے۔ اختیارات کے ناجائز استعمال میں 20 انکوائری، 15 انویسٹی گیشن، 15 میں ریفرنس دائر کئے گئے ہیں۔ نیب کی فہرست میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرنیوالوں میں نوازشریف‘ شہباز شریف شامل ہیں۔ نوازشریف اور شہبازشریف پر رائیونڈ سے شریف فیملی ہائوس تک 126 ملین کی سڑک تعمیر کرنے کے الزام میں انکوائری کی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ذرائع سے زائد اثاثہ جات بنانے پر انکوائری جاری ہے، اسحاق ڈار پر23 ملین پاونڈ کے ساتھ ساتھ 3488 اور 1250 ملین ڈالر کے خرد برد پر انکوائری کی جا رہی ہے۔ سابق صدر زرداری کے خلاف ذرائع سے زائد اثاثہ جات بنانے پر کیس زیر سماعت ہے۔ آصف زرداری پر 22 ارب اور ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر کے کرپشن کے الزامات کی تحقیقات ہورہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت کے خلاف معلوم ذرائع سے زائد آمدن پر انکوائری جاری ہے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق چیئرمین ای او بی آئی اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن ظفر گوندل کیخلاف 567 ملین روپے کی کرپشن کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور پراجیکٹ(آر پی پی) کیس میں انکوائری جاری ہے۔ اسلم رئیسانی کے خلاف ذرائع سے زائد آمدن کے 100 ملین روپے کی انکوائری کی جا رہی ہے۔ آفتاب شیرپا کیخلاف بھی آمدن سے زائد اثاثہ جات پر انکوائری جاری ہے۔ حسین حقانی کیخلاف 3 نجی کمپنیوں کو ایف ایم لائسنس جاری کرنے پر انکوائری جاری ہے۔ ایاز خان نیازی کیخلاف 2 ارب روپے کرپشن کی انکوائری جاری ہے۔ سابق چئیرمین این آئی سی ایل عابد جاوید اور دیگر کیخلاف 100 ملین روپے کرپشن کی انکوائری ہو رہی ہے۔ سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق کیخلاف 8056 ارب روپے کرپشن پر مقدمہ جاری ہے۔ یونس حبیب کیخلاف 3 ارب روپے کی دانستہ قرض نادہندگی کی تحقیقات بھی رپورٹ کا حصہ ہے۔ دوران سماعت نیب حکام نے ایم سی بی بینک کی نجکاری کی، کے حوالے سے انکوائری کیلئے مزید چار ماہ کی عدالت سے مہلت طلب کی جس پر عدالت نے برہمی کا اظہارکیا۔ بی بی سی کے مطابق نیب کے حکام نے یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے حکم پر جمع کروائی ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے نیب کے حکام سے پوچھا تھا کہ انہوں نے ملک کے کتنے بااثر افراد کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کیلئے تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف پر آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی میں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر توقیر صادق کی بطور چیئرمین تعیناتی کے علاوہ کرائے کے بجلی گھروں کے ٹھیکوں میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات بھی ہو رہی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے علاوہ ظاہر کئے گئے آمدن کے ذرائع سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر بھی اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کیاگیا ہے۔ اس رپورٹ میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا نام بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق سابق صدر پر الزام ہے کہ اْنہوں نے ظاہر کئے گئے آمدن کے ذرائع سے 22 ارب روپے سے زیادہ کمائے ہیں۔ فہرست میں فوج کے ریٹائرڈ جنرل سعید الظفر کا نام بھی شامل ہے جنہوں نے ریلوے کے چیئرمین کی حیثیت سے رائل پام گالف کلب کی تعمیر کیلئے 103 ایکڑ سرکاری اراضی الاٹ کی تھی۔ اس رپورٹ میں بیورو کریٹوں کے خلاف زیر تفتیش تفتیش کا بھی ذکر ہے۔ ان بیوروکریٹس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق چیئرمین عبداللہ یوسف، ارشد حکیم اور سلمان صدیق کے علاوہ پانی و بجلی کے سابق سیکرٹری شاہد رفیع اور اسماعیل قریشی شامل ہیں۔آئی این پی کے مطابق لسٹ میں ہارون اختر خان، جہانگیر صدیقی، ایم سی بی کے مالک میاں محمد منشاء بھی شامل ہیں جبکہ سندھ کے چیف سیکرٹری محمد صدیق میمن کیخلاف سرکاری زمین جعلی ناموں پر الاٹ کرنے کے کیس کی تحقیقات جاری ہے جس سے قومی خزانے کو 400 ملین کا نقصان پہنچا۔ ایم سی بی نجکاری کیس سے متعلق نیب حکام نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کی تحقیقات کیلئے مزید وقت دیا جائے جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ ایم سی بی کی تحقیقات 2002 ء سے کی گئی تھیں۔ اب مزید مہلت کیوں مانگی جا رہی ہے کیا پہلے والی انکوائری غلط ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیب کی رپورٹ نامکمل ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کردی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن