’’صبر اور صرف صبر‘‘… وزیراعظم کی تلقین
میرے عزیز ہم وطنو! آپ کو مبارک ہو کہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہہ دیا ہے کہ 2017ء کے آخر تک بجلی کی قلت کا خاتمہ کر دیں گے۔ زیرو پوائنٹ اسلام آباد تا روات سگنل فری شاہراہ منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بارہا یہ بھی کہا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج نہیں صبروتحمل سے کام لیا جائے۔ ذرا سی بجلی بند ہو تو لوگ سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ تھوڑا صبر سے کام لیا کریں۔ بجلی کی معمولی بندش پر لوگوں کو احتجاج کیلئے سڑکوںپر نہیں آنا چاہئے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے جو بہت سی باتیں کیں‘ وہ خواص کیلئے تھیں۔ زیرو پوائنٹ اسلام آباد تا روات سگنل فری سڑک کی تعمیر کے آغاز پر اظہار مسرت کیا۔ لاہور ایئرپورٹ کے اندرون ملک اور بیرون ملک ٹرمینل الگ الگ کرنے کی نوید سنائی۔ یہ بھی کہا کہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔ بجلی کے کارخانے لگ رہے ہیں۔
وزیراعظم میاں نوازشریف فرماتے ہیں کہ ذرا سی لوڈشیڈنگ پر لوگ سڑک پر آجاتے ہیں۔ یہ ذرا سی لوڈشیڈنگ ہے جو عام آدمی کیلئے پیغام موت بن چکی ہے۔ کراچی میں لوڈشیڈنگ نہ ہوتی تو یقینا حبسِ دم میں جان ہارنے والوں کی تعداد ہزاروں تک نہ ہوتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ذرا سی لوڈشیڈنگ کا مزا ملک کے چیف ایگزیکٹو سمیت عزت مآب صدر مملکت‘ وفاقی وزرائ‘ مشیروں‘ ارکان پارلیمنٹ‘ ارکان سینٹ‘ صوبائی گورنروں‘ صوبوں کے وزراء اعلیٰ‘ صوبائی وزیروں‘ مشیروں اور تمام صوبوں کے ارکان اسمبلی کو بھی چکھنا چاہئے۔ اس مزے سے لطف اندوز ہوکر ہی خواص کا یہ طبقہ ؟ذرا سی لوڈشیڈنگ کے ثمرات سے بہرہ ور ہوسکتا ہے‘ ورنہ ان چند ہزار خاندانوں کو لوڈشیڈنگ کی اذیتوں کا کیسے احساس ہوگا؟
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ قومی خزانہ کو لوٹنے والوں کا احتساب ہونا چاہئے مگر کرپشن میں ملوث لوگوں کا احتساب کس نے کرنا ہے؟ یہ تو ارباب اقتدار کا کام ہے تو حضور بدعنوان لوگوں کا احتساب کیوں نہ کرتے۔ اس راہ میں کونسی رکاوٹ آپ کو فرائض کی ادائیگی سے باز رکھے ہوئے ہے؟ ملک میں ہرسُو کرپشن کے چرچے ہیں۔ اس حوالے سے احتساب کی خاطر قائم کیا گیا ادارہ ’’نیب‘‘ کیا کر رہا ہے؟ حکمران نیب کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے کیوں گریزاں ہیں؟ جبکہ وزیراعظم بذات خود اس حقیقت کا اظہار کر رہے ہیں کہ قومی خزانہ کو لوٹا گیا اورجنہوں نے لوٹا‘ اس کا احتساب ہونا چاہئے۔ شاید احتساب کا پتھر اتنا بھاری ہے کہ حکومت اس کو اٹھانے سے معذور ہے اور بالآخر حکومت کے بنائے ادارہ نیب کی پراگرس سے متعلق ازخود نوٹس عدالت عظمیٰ کو لینا پڑا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں ہر طرف بدعنوانی کا واویلا ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے جو بات کی وہ چونکا دینے والی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ نیب میں پلی بارگیننگ اور رضاکارانہ رقم لیکر چھوڑنے کی شرح 75 فیصد ہے جبکہ 25 فیصد مقدمات میں پراسیکیوشن ہی نہیں ہوتی۔ جس ادارے کو حکومت نے کرپشن میں ملوث لوگوں کو انکے کئے کی سزا دینے کیلئے قائم کر رکھا ہے‘ اسکی کارکردگی کا عالم یہ ہو تو پھر لوگ بدعنوانی اور کرپشن کے حوالے سے شکایات نیب کی بجائے رینجرز یا بہ امر مجبوری پولیس کے پاس لے جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ کے روبرو اٹارنی جنرل اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے جو رپورٹس پیش کیں‘ کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران نیب کو کل 19997 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 467 شکایات کی انکوائری ہوئی‘ 1890 شکایات نمٹا دی گئیں۔ ان میں کوئی ایک شکایت بھی کراچی میں چائنہ کٹنگ کے حوالے سے نہ تھی۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز حقیقت ہے۔اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پہلے نمبر پر مالیاتی کرپشن ہے۔ دوسرے نمبر پر اراضیات یا زمینی کرپشن ہے اور تیسرے نمبر پر اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق بدعنوانیاں ہیں مگر موجودہ حکومت نے ان تینوں شعبوں میں ہونے والی کرپشن کے سدباب کیلئے کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھائی نہ ہی ایسی کسی کرپشن میں ملوث افراد کا احتساب کرنے کی ضرورت محسوس کی۔حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ ناقابل یقین حد تک کرپشن کا ارتکاب کرنیوالے لوگ کرپشن سے حاصل ہونیوالے کثیر حصے کا انتہائی قلیل حصہ واپس کرکے نیب کی چھتری تلے دھڑلے سے آزادی و سکون کی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ درحقیقت قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے کو قانون کی گرفت میں لانا اور انہیں احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی بجائے قومی خزانہ لوٹنے والوں کے احتساب کی بات کرنے کو محض زبانی جمع خرچ ہی کا نام دیا جا سکتا ہے۔
بات وزیراعظم میاں نوازشریف کی طرف سے ان عوام کو صبروتحمل کی تلقین سے چلی تھی جن کا مسئلہ سگنل فری شاہراہیں یا قومی خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب نہیں بلکہ ان کروڑوں عوام کا سب سے اولین مسئلہ اپنی بھوک اور ننگ پر قابو پانے کا ہے۔ جس کا ذکر تک کرنا وزیراعظم نے گوارا نہیں کیا۔ شاید اس حوالے سے وزیراعظم کے حاشیہ نشین اور حواری انہیں ’’سب اچھا ہے‘‘ … رعایا سکون اور چین سے ہے‘‘ کی رپورٹ دیتے رہتے ہیں۔
جہاں تک اخبارات میں اس حوالے سے شائع ہونیوالی خبروں کا تعلق ہے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم اپنی مصروفیتوں سے اتنا وقت ہی نہیں نکال سکتے کہ اخبارات کا مطالعہ کرسکیں۔ نہ ہی انہیں مطالعہ کا شغف رکھنے کے بارے میں کبھی سنا گیا ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ انہیں عوام کو ایسے میں صبر کی تلقین کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ جن عوام کے صبر کے بندھن ضروریات زندگی کی ریکارڈ مہنگائی نے توڑ دیئے ہیں‘ کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کیلئے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر کوئی سا بھی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔
وزیراعظم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ پاکستان میں چینی‘ گھی ایسی ملوں کے مالکان کا تعلق کس طبقہ سے ہے؟ کپڑے کی ملیں کن خاندانوں کی ہیں؟ اجناس جن میں چاول‘ دالیں اور سبزیاں شامل ہیں کن بڑے بڑے زمینداروں کی وسیع و عریض اراضیات کی پیداوار ہیں؟ ان میں بیشتر ملوں کی پیدوار انتہائی مہنگے داموں عوام کے ہاتھوں فروخت کرنے کی روش بڑے شدومد سے جاری ہے جس کا مقصد عوام کی پریشانیوں میں اس قدر اضافہ کر دیا ہے کہ وہ حواس باختہ ہوکر نہ امور مملکت میں دخل دینے کے بارے میں سوچ سکیں نہ مؤثر طورپر احتجاج کے قابل ہی رہیں۔
مگر اس حقیقت کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر ہی حکمران اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا کرتے ہیں کہ قوموں کی خوشحالی ہی میں ملک کی ترقی و خوشحالی کا راز مضمر ہوتا ہے۔ پاکستانی عوام بھوک اور ننگ کے خوفناک مسائل سے گھرے ہوئے ہیں جنہیں بڑے بڑے اربوں روپے کے میگا پروجیکٹوں کی تعمیر سے نہیں‘ اپنے پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کے مسائل کے حل سے غرض ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر تو شاید عوام صبر کر لیں مگر کروڑوں لوگ اپنے بال بچوں کی بھوک ننگ اور فاقہ کشیوں پر صبر نہ کر سکیں۔ یہ صبر کا بند ٹوٹا تو مسند نشینوں کے بلندوبانگ خوشنما دعوے نقش برآب ثابت ہونگے۔