• news
  • image

مروت حسین عالمگیر ہے مردان غازی کا

اسلام میں خواتین کے احترام اور انکے حقوق کی پاسداری کے ساتھ ان سے محبت‘ شفقت اور مروت کی تلقین ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے خانم انیسہ رسولی کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا ہے جو افغانستان جیسے مذہبی معاشرے میں دشت گرم میں باد صبا کا جھونکا ہے۔ روشن فکر مذہبی دانشوروں اور علماء نے اس تقرری کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ مذہبی انتہا پسندوں اور رجعت پرستوں نے اس پر تنقید کی ہے۔ اسلام میں عورتوں کو سماجی‘ علمی‘ ادبی یا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر کوئی ممانعت یا قدغن نہیں ہے۔ پیغمبرؐ اسلام کے زمانہ میں خواتین باقاعدہ نماز میں مسجد نبوی میں شرکت کرتی تھیں اور مردوں کے پیچھے آخری صفوں میں کھڑی ہوتی تھیں۔ تاریخ میں قبل از اسلام بھی خواتین دنیاوی کاموں میں شرکت کرتی تھیں۔ قرآن مجید میں ملکہ سبا کا ذکر موجود ہے جسے حضرت سلیمانؑ نے مشرف بہ ایمان کیا۔ ہندوستان میں رضیہ سلطانہ کا عہد حکومت مثالی ہے۔ دنیائے اسلام میں محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ پاکستان‘ ترکی‘ ایران‘ ملائیشیا اور مصر میں خواتین وزراء اور ججز کی حیثیت میں کام کر رہی ہیں۔ اہل مغرب مسلمانوں پر سخت تنقید کرتے ہیں اور خواتین کے حوالے سے ہمیں تنگ نظر اور رجعت پرست قراردیتے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید میں مردوں اور خواتین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے اور خواتین کا احترام واجب اور مقام مسلم ہے۔ اس نامزدگی پر یہی کہا جا سکتا ہے۔ ایں کا راز تو آید و مرداں چنیں کنند لیکن اشرف غنی سے التماس ہے کہ پاکستان سے عداوت نہیں محبت کا راستہ تلاش کریں اور مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت سے اجتناب کریں۔ کیونکہ بقول حافظ شیرازی …؎
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل است
بھارت پر افغانستان کے مغلیہ خاندان نے برسوں حکومت کی۔ بابر نے تزک بابری میں طرز حکومت کا تجزیہ کیا۔ اکبر نے ہندو اور مسلمان کے درمیان رواداری قائم کرنے کیلئے خود ساختہ دین اکبری ایجاد کیا۔ شاہ جہان ہو یا جہانگیر ہندوؤں پر بارش شفقت برستی رہی مگر ہندو ذہنیت نے موقع پاتے ہی مار سیاہ کی طرح مسلمانوں کو ڈس لیا۔ ممتاز تاریخ دان جیمز ملر اپنی کتاب ’’تاریخ برطانوی ہند‘‘ میں رقم طراز ہے۔
1857ء میں جنگ آزادی یا غدر کے بعد شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر کی حکومت کے حکومت کے بعد انگریز نے ہند میں عنان حکومت سنبھالی اور مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے اور ہندوؤں کی ہر شعبہ میں معاونت کی۔‘‘ ہندوؤں نے انگریزوں کی حاشیہ برداری اور کاسہ لیسی کی اور مسلمانوں کو زچ پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ انگریز اور ہندو کے گٹھ جوڑ نے 1947ء میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے ہند کی سیاہ کاریوں اور تباہ کاریوں کا نقشہ کچھ یوں بتایا کہ سائمن کمیشن نے گورداس پور بھارت کو دے کر کشمیر کی طرف بھارت کو زمینی راستہ فراہم کر دیا۔ فلسطین اور کشمیر کی تباہی کا اصل محرک انگلستان ہے۔ آج بھی وہ امریکہ‘ انگلستان‘ اسرائیل اور بھارت مسلم کشی اور اسلام دشمنی میں پیش پیش ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے اور چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ گوادر پورٹ کی وجہ سے عالم استعمار اور کچھ خلیجی ریاستیں چیں بہ چیں ہیں۔ بھارت نے تو ایک کہرام بپا کر دیا ہے۔ اسے پاک چین دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ کراچی اور بلوچستان میں بھارتی ’’را‘‘ کے ایجنٹ مصروف تخریب ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان جنت نظیر کو ایک ایسا جہنم نواز بن گیا ہے جس میں دونوں ممالک نے غریب عوام بے محابہ لقمۂ آتش و آہن بن چکے ہیں۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کشمیریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ پاکستان کو 1971ء میں دولخت کردیا۔ بنگلہ دیش میں غدار مجیب الرحمن کی بیٹی وزیراعظم حسینہ واجدسے دہشت گردی اور تخریب کاری کے عوض بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی شیلڈ وصول کرتے ہوئے پاکستان کے دولخت کرنے کیلئے اپنی خدمات کا ذکر کر رہا ہے پاکستان کو چاہیے اقوام متحدہ میں اس قاتل مسلمانان گجرات کے بیان کا نوٹس لے اور اسے عالمی دہشتگرد قرار دے۔ قائداعظم کے سردار محمد عبدالقیوم کا نعرہ مستانہ و جاودانہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ہماری راہوں میں چراغ فروزاہ ہیں جن کی روشنی میں ہمیں اپنی منزل تلاش کرنی ہے کشمیریوں کی منزل پاکستان ہے فرانس کے صدر ڈیگال سے صحافیوں نے فرانس کے فلسفی بیان پال سار ترکے باغیانہ افکار پر اُسے گرفتار کرنے کا مشورہ دیا تو اس نے کہا۔’‘سارتر فرانس ہے کیا میں فرانس کو گرفتار کروں‘‘۔یہ آزادیٔ تحریر پر اتحاد و اعتبار تھا یہ فرانس کی جمہوری اقدار کی قدر دانی تھی کشمیر کی تاریخ ساز سیاست دان، دانشور اور صاحب عرفان سردار محمد عبدالقیوم خان کشمیر بھی ہے اور پاکستان بھی ہے بات مروت کی ہے بقول اقبال مروت مردان غازی کا حسن عالمگیر ہے ہم مروت و اخوت و موافات سے محروم ہورہے ہیں مجھے 1993کے وہ دن بھی یاد ہیں جب پاکستان میں محترمہ بے نظیر کی حکومت تھی تو جناب میاں نواز شریف اکثر لاہور سے ہیلی کاپٹر پر تشریف لاتے اور کشمیر ہائوس اسلام آباد میں دوپہر کا کھانا بمعہ فوج ظفر موج سردار عبدالقیوم خان کے ساتھ کھاتے جس میں بحیثیت مشیر حکومت کشمیر راقم بھی شرکت کرتا مروت کا تقاضا ہے۔سردار عبدالقیوم خان گزشتہ روز انتقال کر گئے ہیں۔ جامع مسجد کشمیریاں میں انکی نماز جنازہ ادا کی جائیگی۔ مرحوم نے آخری دم تک مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کی۔ اللہ مغفرت کرے‘ عجب آزاد مرد تھا۔

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

epaper

ای پیپر-دی نیشن