مورال کی بلندی اور اسکا تحفظ فوج کی پیشہ ورانہ ضرورت ہے
عجیب ہی صورتحال ہے‘ تھر میں موت کا رقص ہو‘ کراچی میں گرمی سے اموات ہوں یا کوئی اور قومی سانحہ ہو حکومت ہمیشہ لاتعلق یا الگ تھلگ نظر آتی ہے۔ دو ماہ قبل تک کراچی جیسا میٹرو پولیٹن شہر اور خطے کی قدیم بندرگاہ کی بدولت تجارتی طور پر دنیا بھر میں اہم مقام رکھنے والا شہر پانی کے بحران میں مبتلا رہا۔ لوگ پینے کیلئے پانی کی بوند بوند کو ترس گئے۔ میڈیا پر تواتر کے ساتھ آنیوالی خبروں سندھ حکومت پر تنقید اور عوامی احتجاج کے باوجود بحران جاری رہا۔ میڈیا نے اطلاع دی کہ 2 ہزار روپے والا پانی کا ٹینکر22 ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس طرح کے حقائق منظر عام پر آنے کے باوجود پانی کی فراہمی کے نام پر روزانہ کے حساب سے کروڑوں کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا۔جون آیا تو کراچی کے عوام کو گرمی کی لہر نے آن لپیٹا‘ گرمی‘ حبس یا لو لگنے سے لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے رہے صرف چار روز میں مرنے والوں کی تعداد بارہ سو سے تجاوز کر گئی۔ ٹیلی ویژن چینلوں و اخبارات کے ذریعے عوام الناس کو معلوم ہوا کہ کراچی کے باسیوں کو گھروں میں پانی و بجلی نصیب نہیں۔ گرمی سے متاثر ہو کر ہسپتال پہنچتے ہیں تو وہاں طبی امداد یا ادویات موجود نہیں‘ کراچی تھر یا اندرون سندھ کا پسماندہ علاقہ نہیں اس کا شمار ایشیا کی سطح پر ترقی یافتہ شہروں میں ہوتا ہے۔ ایسے کسی شہر میں ہزاروں لوگوں کا پیاس یا گرمی کی وجہ سے لقمہ اجل بن جانا سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمارے حکمران کہاں ہیں کہ ایسا کوئی بھی بحران ہو تو لوگ پاک فوج کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ گرمی کے متاثرین کی مدد کیلئے بھی فوج نے فوری طور پر شہر کے مختلف علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگائے جہاں ایمرجنسی کی صورت میں لوگوں کو فوری طبی امداد مہیا کی گئی لیکن سوال یہ ہے کہ جن کا مینڈیٹ ہے وہ یہ کام کیوں نہیں کرتے‘ کوئی بھی قومی سانحہ رونما ہو ‘ صوبے وفاق کی طرف دیکھتے ہیں وفاقی صوبوں کی طرف۔ سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیں ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ لوگ فوج سے امید لگا لیتے ہیں۔ گرمی اور پانی کی کمی کے حوالے سے جو کچھ حالیہ گرمیوں میں کراچی کے عوام کے ساتھ ہوا اس پر سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے ریمارکس پوری دنیا میں پاکستان کیلئے مذاق کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ فرماتے ہیں ’’اگر تھوڑا صبر و تحمل سے کام لیا جائے تو ہم دہشت گردوں کو پیاس سے بھی مار سکتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں بھوک‘خوراک کی کمی اور خشک سالی کی بدولت تھر کے مکینوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا ذکر بھی انتہائی تکلیف دہ ہے۔ صرف 2014 ء میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے جن میں نومولود و کم عمر بچوں اور خواتین کی اکثریت تھی۔ میڈیا کے ذریعے مسئلہ قومی سانحہ بن کر سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ خشک سالی ‘ بھوک کی وجہ سے تھر میں اموات ہر سال کی روٹین ہے۔ حکومتی سطح پر بے حسی دیکھ کر حیدر آباد چھاؤنی میں تعینات فوج آگے بڑھی جس نے تھر میں متاثرین کیلئے ریلیف سنٹر قائم کئے ملک میں عوامی سطح پر احتجاج کے بعد وزیراعظم نوازشریف بھی تھر پہنچے اسکے بعد میڈیا دیگر اہم خبروں میں مصروف ہوا تو وفاقی و سندھ کی صوبائی حکومت کی جان میں جان آئی۔ تھر وہیں کا وہیں ہے۔ وہی بھوک و پیاس ہے اور سندھ و وفاقی حکومتوں کے دعوے ہیں۔
ابھی چند روز قبل پنو عاقل سے فوجی یونٹ کو کھاریاں لے کر جانیوالی سپیشل ٹرین گوجرانوالہ کے قریب ہیڈ چھنانواں کے مقام پر حادثے کا شکار ہو گئی۔ ریلوے پل ٹوٹنے کی بنا پر انجن سمیت چار بوگیاں نہر میں جا گریں۔ یونٹ کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل عامر جدون ان کی اہلیہ دو کمسن بچوں ‘ میجر راشد‘ کیپٹن عادل اور لیفٹیننٹ کاشف سمیت 18 فوجی اور ریلوے انجن کا ڈرائیور شہید ہو گئے۔ چند برسوں بعد کسی بھی چھاؤنی میں تعینات یونٹ یا رجمنٹ کی ملک کی دیگر کسی چھاؤنی میں تعیناتی عسکری معمولات کا حصہ ہے۔ پوری یونٹ کے افسروں و جوانوں اور انکے سامان کی منتقلی کیلئے ریلوے کی سپیشل ٹرین چلائی جاتی ہے۔ پاک فوج کی عسکری روایات کیمطابق اس سفر پر یونٹ کے کمانڈنٹ دیگر افسران اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جوانوں کیساتھ سفر کرتے ہیں۔ یونٹ کے سی او دیگر افسران اور جوانوں کا تعلق ایک گھرانے و خاندان کی طرح ہوتا ہے جو امن ہو یا میدان جنگ اکٹھے جیتے اور مرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چار بوگیاں 13 فٹ گہری نہر میں گریں تو ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیر باقی فوجی جوان امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ بعد ازاں کمانڈوز کے غوطہ خور اور گوجرانوالہ سے دیگر فوجی امدادی ٹیمیں بھی موقع پر پہنچ گئیں۔ اب بحث یہ نہیں کہ حادثہ ریلوے کی نااہلی کے سبب پیش آیا یا کوئی دہشت گردی ہوئی یا وزیر ریلوے نے پہلے دن وقوعے میں دہشتگردی کا پہلو کیوں اجاگر کیا اور جب ثابت ہو گیا کہ دہشتگردی نہیں بلکہ ٹریک کے نٹ بولٹ کھلے ہونا حادثے کا سبب ہے تو وزیر موصوف نے 6 جولائی کو پریس کانفرنس میں شہید ہونیوالے ریلوے انجن کے ڈرائیور کی تیز رفتاری اور جائے حادثہ سے 26 کلومیٹر پہلے تنگ موڑ کی وجہ سے ’’ڈیڈ سٹاپ‘‘ پر رک کر رجسٹر پر دستخط نہ کرنے کی بات کر کے صرف ڈرائیور ہی کو قصوروار کیوں ٹھہرایا۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے روز گوجرانوالہ میں جب شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ ادا کی گئی تو کو ئی ایک بھی حکومتی نمائندہ اس نماز میں شریک کیوں نہیں پنجاب کے گورنر اور گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے منتخب و غیر منتخب سیاسی نمائندے بھی کہیں اور مصروف تھے۔مسئلہ یہ ہے کہ فوج حالت جنگ میں ہے۔ ان حالات میں فوجی میدان جنگ میں جان دے یا دوران ڈیوٹی حادثے میں شہید ہو یہ شہادتیں تقاضہ کرتی ہیں کہ قوم ان سے یکجہتی کا مظاہرہ کرے یقیناً مورال کی بلندی اور اس کا تحفظ فوج کی پیشہ ورانہ ضرورت ہے ۔قوم کی نمائندگی حکومت وقت کرتی ہے ۔ ہمارے حکمران نہ جانے کیوں عوامی مسائل کو عوام الناس کا نصیب اور دہشت گردوں یا ملک دشمنوں سے جنگ ‘ زلزلہ و سیلاب جیسی آفات کو صرف فوج کا مسئلہ سمجھتے ہیں اس طرح کا حکومتی رویہ ہی ہے جس کی بنا پر عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے پھر سے فوج کی طرف دیکھنے لگے ہیں۔