ماڈل ٹائون سرگودھا اور عدالت عالیہ کا فیصلہ
ن لیگ کا حکمرانی کا زمانہ صوبہ پنجاب کی حد تک میٹروبسوں، کشادہ سڑکوں، سرکاری رہائشی سکیموں اور دوسرے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے زیر بحث لایا جاتا ہے مگر پنجاب ہی میں سرگودھا ڈویژن میں (جہاں ایک قومی حلقے سے وزیر اعظم نواز شریف الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب بھی ہوئے) ان کا جادو ابھی تک نہیں چلا۔ ایک مثال کافی ہے۔ سرگودھا میں امپرومنٹ ٹرسٹ کی سرکاری رہائشی سکیم ماڈل ٹائون سرگودھا کے حوالے سے چند دن پہلے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مسٹر جسٹس محمد فرخ عرفان خان نے دکھی الاٹیوں کی رٹوں (30500/ 13 اور 11890/ 15) پر فیصلہ سنایا اس کی کئی پرتیں ہیں۔ 9 صفحات پر مبنی اس تفصیلی فیصلے میں گزشتہ 20 برسوں کے دوران معلق سکیم کے حوالے سے الاٹیوں سے لی گئی رقم کی لوٹ مار کا تذکرہ بھی ہے اور اس عرصہ کے دران ٹرسٹ کے چیئرمین کے عہدے پر فائز رہنے والے ڈپٹی کمشنروں، ڈی سی اوز، تحصیل ناظم اور متعلقہ تمام سرکاری سٹاف کی غیر ذمہ داریوں کی طرف واضح اشارے بھی۔ فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ کے چیئرمینوں، سیکرٹریوں اور سیکرٹری ہائوسنگ اربن ڈیویلپمنٹ اینڈ پبلک ہیلتھ انجیئرنگ نے صوبائی محتسب پنجاب کے واضح احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا اور خود عدالت عالیہ میں معاملات کے آ جانے کے بعد بھی مسلسل وعدہ خلافی اور بے عملی کا مظاہرہ کیا۔ فاضل عدالت نے اس بات کا تذکرہ بھی اپنے فیصلے میں کیا کہ ڈی سی او سرگودھا نے فاضل عدالت میں اپنی حاضری کو بھی ضروری نہیں سمجھا جبکہ انہیں اس سلسلے میں استثنیٰ نہیں دیا گیا تھا۔ عدالت عالیہ میں بار بار کے مواقع کے بعد فاضل عدالت نے اپنے حتمی فیصلے میں حکم دیا ہے کہ الاٹیوں سے اب کسی قسم کے ترقیاتی فنڈز کے نام پر رقم وصول نہ کی جائے اور چھ ماہ کے اندر تمام ترقیاتی کام مکمل کروا کر لوگوں کو ان کے پلاٹوں کا قبضہ دیا جائے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ صوبے میں گڈ گورننس کے لئے رات دن مارے مارے پھرتے ہیں۔ سرگودھا شاہینوں کا شہر اور 65 کی پاک بھارت جنگ کے تین ہیرو شہر میں سے ایک ہے۔ سیاسی طور پر بھی ن لیگ کو ان شہر پر مان ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے عوام کے ساتھ سرکاری مشینری جو سلوک گزشتہ 20 برسوں سے کر رہی ہے۔ اس کا بڑا ثبوت پہلے صوبائی محتسب کے فیصلوں، پھر گورنر پنجاب کے احکامات اور اب فاضل عدالت عالیہ لاہور کے فیصلے اور حکم نامے کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ عوامی پیسے کو جس بے دردی سے لوٹا گیا اور ہزاروں لوگوں کو جس طرح رہائش کی سہولت سے اب تک محروم رکھا جا رہا ہے اس کا نوٹس اگر اب بھی نہ لیا گیا تو پھر ن لیگ کو بلدیاتی اور بعد میں عام انتخابات میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ ڈی سی او سرگودھا گزشتہ 20 برسوں سے سرگودھا میں متعین نہیں ہیں اور نہ ہی اس المیے کے وہ اکیلے ذمہ دار ہیں لیکن اگر وہ ماضی کے کرپٹ کی پردہ پوشی میں لگے رہیں گے اور فاضل عدالت میں حاضر نہ ہو اور ایسی ہی لیت و لعل کی دوسری کارروائیوں میں خود کو الجھائیں گے تو پھر وہ بھی اس مسئلے کے ذمہ دار ٹھہریں گے۔ جو انہیں ورثے میں ملا ہے۔ ہم ان کو مشورہ دیں گے کہ وہ اب کفارہ کے طور پر رات دن ایک کر کے فاضل عدالت عالیہ اور صوبائی محتسب کے احکامات پر عمل درآمد کروائیں اور اپنی سرکاری ذمہ داریاں پوری کرنے کے اطمینان کے ساتھ ساتھ ان ان گنت الاٹیوں کی دعائیں بھی لیں جو گزشتہ چوبیس برسوں سے محض سرکاری اشتہارات پر اعتماد کر کے اپنی جمع پونجی خرچ کر کے ماڈل ٹائون سرگودھا میں گھر بنانے کا خواب آنکھوں میں سجائے پھرتے ہیں۔