• news
  • image

شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس بینک

جمعہ کو شنگھائی تعاون تنظیم کا دو روزہ سالانہ سربراہ اجلاس روس کے شہر اوفا میں ہوا ۔ اس اجلاس میں پاکستان اور بھارت کو تنظیم کی رکنیت دینے کی دستاویز پر دستخط ہوئے ۔اس طرح اب پاکستان اور بھارت شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر کی بجائے مکمل ممبر بن گئے ہیں۔اس تاریخی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کی۔ پاکستان نے مکمل رکنیت کی درخواست ستمبر 2014 میں جمع کرائی تھیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس بینک اگر مستقبل قریب میں اپنے مقاصل حاصل کرنے کیلئے سنجیدگی سے آگے بڑھتے رہے تو امریکہ اور یورپ کی اقتصادی جارحیت کا اس خطے سے خاتمہ ہو جائیگا۔ جس سے بین الاقوامی سیاست بھی انکے چنگل سے نکل جائیگی۔روس، چین، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان پر مشتمل اقتصادی، سیاسی اور فوجی تعاون کی اس تنظیم کی بنیاد 2001 میں چین میں رکھی گئی تھی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی یوریشیا بیلٹ میں تبدیل ہوتی ہوئی ارضی سیاست کی صورتحال میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔
وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ روس ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے اور صدر پوٹن کی طرف سے سلک روڈ اقتصادی زون کو یوریشیا کی اقتصادی یونین سے مربوط کرنے کے اقدام سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی اقتصادی رسائی کا دائرہ وسیع ہو گا۔پاکستان اس شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو اقتصادی راہداری کے ذریعے زمینی اور سمندری تجارتی راہداری فراہم کر سکتا ہے۔ ان ممالک کی تاریخ، جغرافیہ ، ثقافت، مذہب اور ریاستی مفادات الگ الگ ہیں لیکن انہوں نے شنگھائی تنظیم اور برکس کے ذریعے عالمی اقتصادی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس بینک کے قیام نے عالمی مالیاتی اداروں، مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کی مالیاتی بالا دستی کو چیلنج کردیا ہے۔BRICS کا نام پانچ بانی ممالک کے پہلے حروف تہجی پر رکھا گیا ہے۔ B برازیل ، Rروس ، Iانڈیا، C چین،Sسے سائوتھ افریقہ کے پہلے حروف تہجی پر مشتمل ہے۔ جنوبی افریقہ کی شمولیت سے پہلے اس بینک کا مجوزہ نامBRICتھا ۔ اس نئے ترقیاتی بینک نے حادثاتی فنڈ بھی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ابتدائی طور پر ترقیاتی بینک کیلئے سرمایہ کا حجم 50 ارب ڈالر رکھا گیاہے۔جسے بعد میں سو ارب ڈالر تک بڑھایا جائیگا۔ اسکے علاوہ سو ارب ڈالر کا ایک ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے جس میں چین 41 ارب ڈالر‘ بھارت، برازیل اور روس اٹھارہ ،اٹھارہ ارب ڈالر اور جنوبی افریقہ پانچ ارب ڈالر کا سرمایہ لگائے گا۔
نئے اقتصادی بلاک برکس کے رکن ممالک کی آبادی، دنیا کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہے۔ ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی پچیس فیصد ہے۔برکس ترقیاتی بینک کا ہیڈ کواٹر چین کے شہر شنگھائی میں ہو گا ۔ ایک علاقائی دفتر جنوبی افریقہ میں بھی ہو گا۔ بینک کا پہلا چیف ایگزیکٹو بھارت سے لیا جائیگا ۔برکس بینک 2016 سے فنڈز کی فراہمی شروع کریگا۔ اس بینک کے مراکز بتدریج بھارت، روس اور برازیل میں بھی کام شروع کر دینگے۔رپورٹس کیمطابق اس بینک کے قیام میں سابق بھارتی وزیر اعظم اورممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کلیدی کردار ادا کیا۔انہوں نے ہی اس کا ورکنگ پیپر بنایا تھا۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ممالک کہ جن کا ایمان توحید پر اور معیشت کی بنیاد ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود پر ہے وہ کب خواب غفلت سے اٹھیں گے۔ ہمارے دین نے تو غریب، نادار اور ضروت مندوں کیلئے اپنی ذاتی کمائی میں سے اڑھائی فیصد مختص کرنے کا حکم دیا ہے۔ بیت المال اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ریکٹس کے ذریعے اس مد سے ارب ہا روپے سیاسی بنیادوں پرتقسیم کیے جاتے ہیں۔ دوسرے اسلامی ممالک میں کھربوں روپے اس طرح کی" کھیل تماشوں"(معذرت کے ساتھ) میں صرف کیے جا رہے ہیں۔ عرب ممالک اگر تیل اور سونے کی دولت سے مالا مال ہیں تو دوسرے مسلم ممالک کے پاس قدرت نے کئی اہم معدنیات اور ایسے قدرتی وسائل دئیے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک للچائی ہوئی نظروںسے دیکھتے ہیں۔پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے پاس جس قسم کی افرادی قوت اور ذہانت موجود ہے وہ دنیا کے کم ہی ممالک کو حاصل ہے پھر ہم کیوں دست و نگر اور خوف ذدہ ہیں۔ اہم بین الاقومی معاملات پر بھی مسلم امہ کویک زبان نہیں کر سکے۔عرب ممالک کی اکثریت اسلامی یکجہتی کی بجائے عرب قومیت کا پرچار کرتی ہے۔ یہ ممالک فلسطین کے معاملے میں زبانی بیان بازی تو کمال کی کرتے ہیں۔ لیکن اپنی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں انہی ممالک کی آشیرباد سے بناتے ہیں۔ جو فلسطین کو اسرائیل کے زیرنگیں رکھنا چاہتے ہیں۔ کشمیری اور میانمار کے مسلمانوں کی حالت زار کے معاملے پر عرب ممالک نے چپ کیوں سادھ رکھی ہے۔مسلم امہ کا اتحاد او ر" نیل سے لے کر تابخاک کاشغر "کا خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہو گا جب او آئی سی اور دولت مند اسلامی ممالک کے حکمران برکس کی طرز پر ایک بینک بنانے پر آمادہ ہو نگے۔ورلڈ بینک اور برکس دونوں جو بھی قرضے دیں گے وہ یقینا سود کی بنیاد پر ہوں گے۔ ملت اسلامیہ کا نظریہ تو سودی کاروبار کیخلاف ہے پھر ہم اس جانب کیوں توجہ نہیں دیتے۔ کیا منموہن جیسے ماہر اقتصادیات پاکستان میں نہیں ہیں؟ اگر ہم بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جوہری طاقت بن سکتے ہیں تو کیا ایٹمی دھماکہ کرنیوالے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور اسحاق ڈار پاکستانی ماہر اقتصادیات کے ساتھ مل کر عالمی بینک یا برکس کی طرز پر حقیقی اسلامی بینک کاتصور پیش نہیںکر سکتے۔ سعودی عرب ، قطر ، کویت، برونائی دار السلام، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور پاکستان کیوں ایسے اسلامی بینک کی بنیاد نہیںرکھ سکتے ہیں جو ورلڈ بینک اور برکس کے متبادل کے طور پرملت اسلامیہ کے ممالک میں معاشی انقلاب کا سبب سکے۔اس بارے میں ملائیشیا کے سابق صدر مہاتیر محمد نے جو تجاویز تیار کی تھیں اگر ہمارے ماہر اقتصادیات ان کا سنجیدگی سے مطالعہ کرلیں تو یقینا آگے بڑھنے کی راہیںنکل سکتی ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن