ڈوبتی اور جلتی دنیا
زندگی کی رعنائیوں اور دلکشیوں کا حامل ملک مالدیپ ڈوب رہا ہے۔ آج مالدیپ کی سطح سمندر سے بلندی محض سات فٹ رہ گئی ہے۔ سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ عالمی سطح پر درجہ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو اگلے سو سال میں مالدیپ مکمل طور پر سمندر برد ہو جائیگا۔ 11 سو بانوے جزیروں پر مشتمل تین لاکھ آبادی کے حامل ملک کے حکمران سوچ رہے ہیں کہ وہ اپنا ملک کہیں اور لے جائیں۔بھارت، سری لنکایا آسٹریلیا زمین خریدنے پر غور ہو رہا ہے۔
ماہرین مالدیپ کواسی جگہ کسی دوسری شکل میںقائم رکھنے کیلئے بھی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ مستبقل کا مالدیپ انسانی ہاتھوں سے بنائے جزیروں کا مرکزہوگا جوقدرتی جزائرکی مانند سرسبز و شاداب اور سطح سمندرپر تیرتے دکھائی دینگے۔ستارہ نما ایک جزیرہ مالدیپ کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہے جس پر عالمی معیارکا ہوٹل، کانفرنس روم اور کئی گولف کلب تعمیر کئے جائینگے۔ مالدیپ حکومت نے ہالینڈ کی فرم کیساتھ دنیا کے سب سے بڑے تیرتے جزیروں پرکام شروع کر دیا ہے۔ پانی پر تیرنے والے 43مصنوعی جزیرے تخلیق بھی کرلئے گئے ہیں۔
عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ جسے گلوبل وارمنگ بھی کہتے ہیں، پوری دنیا کیلئے خطرات لئے ہوئے ہے۔ مالدیپ نے تو سو سال بعد ڈوبنا ہے کئی ممالک میں گلوبل وارمنگ کی حشر سامانیوں سے لوگ ابھی سے موت کے منہ میں جانے لگے ہیں۔ کراچی میں دو ہزار کے قریب شہری درجہ حرارت میں اضافے کے باعث موت کی وادی میں اتر گئے۔ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں اس سال درجہ حرارت 40 تک جا پہنچا۔ جس سے گوروں کی جان پر بنی ہوئی ہے۔
زمین کا درجہ حرارت ہم خودبڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کا پوری دنیا پر اثر تو بعد میں ہونا ہے فوری طور پر ہم خود اس سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ سیلاب کا سبب بھی درجہ حرارت میں اضافہ ہے جسکے باعث گلیشئر پر برف پگھلنے کا عمل تیز ہو گیاہے۔ یہ پانی سیلاب کا باعث بنتا ہے۔ مالدیپ سو سال میں ڈوبتا نظر آتا ہے تو گلیشئرز بحر منجمد شمالی اور بحر منجمد جنوبی سو سال بعد ہو سکتا ہے برفزاروں کے طور پر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں۔ زیر زمین پانی اوربرفراز انسانی زندگی،حیوانات اور نباتات کیلئے پانی کی فراہمی کے ذرائع ہیں۔ قدرت نے زیر زمین پانی اور زمین کے اوپر پانی کا ایک سائیکل قائم کر رکھا ہے۔ زمین کے اوپر کا پانی بارش کی صورت میں ہو یا سیلاب کی شکل میں، اسے زیر زمین جانا ہوتا ہے مگرہم اس پانی کو زیر زمین جانے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ یہ کبھی تباہی مچاتا اور کبھی خاموشی سے سمندر میں چلا جاتا ہے جس کی سطح ہر لمحے بلند ہو رہی ہے۔ آج مالدیپ ڈوبتا نظر آ رہا ہے باقی دنیا بھی ڈوب رہی ہے مگر ابھی ڈوبتی نظر نہیں آ رہی۔
گلوبل وارمنگ میں ہر شہری برابر کا ذمہ دار اور اس سے محفوظ رہنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ درخت دھڑا دھڑ کاٹے جا رہے ہیں۔ ایک بڑا درخت 10 اے سی کے برابر ٹھنڈک اور بے شمار آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ درخت انسانی استعمال کیلئے ہیں۔ اگر آپ ایک لاکھ کاٹتے ہیں تو دو لاکھ لگا بھی دیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک لاکھ کاٹنے والے ایک بھی نہیں لگاتے۔ محکمہ جنگلات ہر سال شجرکاری مہم چلاتااور کروڑوں درخت لگانے کا دعویدار ہے مگریہ درخت شاید کاغذوں اور سڑکوں پر لہراتے بینرز میں ہی لگتے اور اُگتے ہیں۔ اگر واقعی کروڑوں درخت ہر سال لگیں تو پاکستان جنگلات کا ذخیرہ نظر آئے۔ اسرائیل میں کسی بھی فرد کی وفات اور پیدائش کی یاد میں ایک درخت لگانے کی روایت ہے یوں اردن میں گولان کی پہاڑیوں کے اِس پار ریت اڑاتا صحرا اور اُس پارکی زمین سبز و شاداب ہے۔ ہمارے ہاں شادی اور مرگ پر درخت کاٹ کر دیگیں پکائی جاتی ہیں۔ ایسی صورتحال دیہات میں زیادہ پیش آتی ہے جبکہ درجہ حرارت میں زیادتی کا سبب دیہات سے زیادہ شہر ہیں۔
ماحولیات کے ماہر ڈاکٹر منور صابر بتا رہے تھے کہ گرمی کی شدت کا انحصار سورج کی شعاعوں کے زمین سے ٹکرا کر ریفلکٹ ہونے پر ہے۔ فصلوں اور گھاس پر شدت کم سیمنٹ کے فرش اور تار کول کی سڑک پر پڑنے والی شعائیں ماحول کو شدیدطورپر گرما دیتی ہیں۔ فصل والا کھیت تیس فیصد گرمی کو جذب کرتا ہے جبکہ ننگی زمین سے جتنی ہیٹ ریفلیکٹ ہوتی ہے فرش یا سڑک سے اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے ۔شہر میں ایک کنال پر پلازہ بنتا ہے تو اس پر پڑنے والی شعائیں ایک کنال کا نہیں پلازے کی اونچائی کیمطابق اثر چھوڑیں گی جو کئی کنال کے برابر ہو گا۔ اس اثر کو ختم کرنے کیلئے پلازوں اور مکانات کے درمیان گراسی پلاٹبنانے پودے اور درخت اگانے کی ضرورت ہے۔
سوائے پیسے کے ہم ہر معاملے میں شاہ خرچ قوم ہیں۔ پانی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ برش اور شیو کے وقت ٹوٹی کھلی رہتی ہے۔ بجلی کی کمی کا رونا روتے ہیں بلا ضرورت لائٹیں دن کو بھی جلتی ہیں۔ ماچس کی تیلی سلگانے سے بچنے کیلئے چولہا جلتا رہتا ہے۔ گاڑی اور موٹر سائیکل ایک بالٹی سے دھوئی جا سکتی ہے مگر پائپ لگا کر ضرورت سے کئی گنا زیادہ پانی ضائع کیا جاتا ہے۔ سرکار اور ادارے نے گاڑی دے رکھی ہو تو سردیوں میں سٹارٹ ہی رکھی جاتی ہے کہ صبح سٹارٹ کرنے میں مسئلہ نہ ہو۔ سگنلز پر اور ٹریفک جام میں یہاں پٹرول ضائع ہوتا وہیں آلودگی کا باعث بھی بنتا ہے۔ کینڈا میں سٹارٹ کھڑی گاڑی پر جرمانے کا قانون بن گیا ہے۔ پٹرول جلنے سے خارج ہونیوالی گیس اوزون کی تباہی کا سبب بھی بن رہی ہے۔زمین کی سطح سے تقریباً 19 کلو میٹر اوپر اور 48 کلو میٹر کی بلندی تک تہہ اوزون ایک چھَلنی کے طور پر کام کرتی ہے جو سورج کی مہلک بنفشی شعاعوں کو زمین کی سطح تک پہنچنے سے روکتی ہے۔یہ شعائیں سکن کینسر کا اور نباتات کی تباہی کاسبب بنتی ہیں۔ پھیپھڑوں کیلئے سخت نقصان دہ ہیں۔ کیمیائی عمل سے خارج ہونیوالی گیسیں،دھواںاورمرکبات اوزون کی اس تہہ کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ کیمیکلزکلوروفلوروکاربن کہلاتے ہیں جو کہ سردخانہ اور ایروسول اسپرے میں استعمال ہوتے ہیں۔ مصنوعی کھاد میں استعمال ہونیوالے مرکبات مثلاً نائٹرس آکسائیڈ بھی اوزون کیلئے تباہ کن ہیں۔تحقیق کے مطابق اوزان میں چھید پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔یہ عمل یونہی جاری رہا تواوزان کمزور ہونے سے دنیا کا درجہ حرات ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ جائیگا۔ اوزون تہہ کو نقصان پہنچانیوالے عمل کو روک اسے اسی حالت میں رکھا جا سکتا ہے اور اس تہہ کو مضبوط رکھنے کیلئے زمین سے اس تک آکسیجن پہنچانی ہوگی جس کا بہترین ذریعہ جنگلات میں اضافہ ہے۔ تھوڑی سی توجہ سے ہم اپنی نسلوں ڈوبنے اور جلنے سے بچا سکتے ہیں۔