یہ ہے عشرۂ نجات
اس وقت لاکھوں فرزندان توحید اعتکاف بیٹھے ہیں۔ طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی تلاش کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اعتکاف کرنا سنت ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا فرمان ہے کہ آنحضورؐ عموماً رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھتے تھے۔ اعتکاف کے معانی، ایک جگہ پابند ہوجانا یا ٹھہر جانا، رک جانا، اعتکاف جو رمضان میں مسلمان کرتے ہیں اسکا مقصدومطلب عبادتوں کیلئے یعنی یادالہی کیلئے دنیاوی امور سے رک جانا، اللہ تبارک وتعالی کی عبادت کیلئے دنیا سے علیحدگی اختیار کر لینا۔ کسی مقام پر ٹھہر کر دل کی اتھاہ گہرائیوں میں یادالہی بسا کر اپنے طور فرضی ونفلی عبادتوں اور دعائوں میں مگن ہو جانا اعتکاف کی اصل ہے۔ اعتکاف مسنون کی نیت بہت ضروری ہوتی ہے جو کہ بیسویں روزے غروب آفتاب سے قبل کر لی جاتی ہے۔ غروب آفتاب ہو جانے کے بعد اعتکاف بیٹھنے کی جگہ نیت کرنے سے مسنون اعتکاف نہیں ہو سکتا۔ خواتین کا اپنے گھروں میں اعتکاف پسندیدہ سمجھا گیا ہے۔ امہات المومنینؓ اپنے حجروں میں اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں۔ آنحضورؐ نے مسنون اعتکاف کو دو حج اور دو عمروں کے ثواب کا مؤجب قرار دیا ہے۔ یہ بہت بڑی فضیلت اعتکاف ہے۔ اور یہ دل میں حج کی تمنا رکھنے والے غریب، ناداروکم وسیلہ لوگوں کیلئے بہت آسانی وعنایت ہے کہ جو مالی طور پہ حج کی استطاعت نہ رکھ سکیں لوگوں کیلئے بہت آسانی وعنایت ہے کہ جو مالی طور پر حج کی استطاعت نہ رکھ سکیں وہ تمام آداب کے ساتھ مسنون اعتکاف کر لیں تو حاجیوں میں شامل ہو جائیں گے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا جو شخص اللہ کی رضا کیلئے ایک دن کا بھی اعتکاف کر لیتا ہے تو اللہ تبارک تعالی اس شخص اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دینگے اور ایک خندق کی ساخت آسمان اور زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہو گی۔ ذرا سوچیے کہ اللہ تعالی نے ایک دن کے اعتکاف کو اتنی فضیلت والا اعتکاف قرار دیا ہے تو آخری عشرے کے دس دن جو رمضان کے مبارک مہینے کا ہے میں اعتکاف کرنیوالوں کو کیا کیا انعام و اکرام سے نہ نوازا گیا ہو گا۔ وہ بہت بخت والے لوگ ہیں جو رمضان کے آخری عشرے کی عبادت کی رعنائیوں سے مستفیض ہوتے ہیں۔ عبادتوں میں گم ہیں، دنیا کے کاموں سے چھٹے ہی نہیں بلکہ دنیا کے رنج و آلام سے بھی بے بہرہ ہو گئے ہیں اور اپنا مکمل دھیان اللہ بزرگ وبرتر کی کبریائی بیان کرنے میں، استغفار کرنے میں، عجزوانکساری سے سربسجود ہونے میں لگا چکے ہیں۔ 23، 25، 27، 29 یہ طاق راتیں ہیں ان طاق راتوں میں ہی لیلۃالقدر ہے کہ جس رات کے بارے میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ اس رات کی عبادت کا ثواب ہزار راتوں کی عبادتوں کے ثواب کے برابر ہے کہ اس رات اللہ ذی شانہ کے مقرب فرشتے روح الامین حضرت جبرائیلؑ حکم ایزدی سے زمین پہ اترتے ہیں۔ لوگوں کی دعائوں، اشکوں اور پکار کو سمیٹتے ہیں، اللہ کے بندوں کو بھلائی و سلامتی کا پیغام دیتے ہیں، اللہ عزوجل کی بخشش کی، اللہ ذی شانہ کے رزق کی، اللہ تعالی کی شفا کی، اللہ معبود برحق کی رضا کی، اللہ مالک کل کی عنایتوں اور اللہ قریب المجیب سے کی گئی دعائوں کی قبولیت کی نوید دیتے ہیں۔ رمضان اس عشرے میں معتکف جتنے دن اعتکاف بیٹھتا ہے۔ طاق راتیں بھی ان دنوں میں ہی آتیں ہیں اور اس طرح معتکف کیلئے لیلۃالقدر کی تلاش آسان و سہل ہوتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی طاق رات کی شب قدر مضان کے آخری عشرے کا معتکف نہ پا سکے۔ اللہ غفورورحیم کا اپنے بندوں پہ کرم بے بہا و بیکراں ہے مگر شب قدر کا تحفہ نبی آخرالزمان محمدؐ کی امت کیلئے خاص کرم ہے۔ یہ اللہ کی نبیؐ سے محبت کا غماز ہے۔ کہ بندے کے گناہ زمین سے آسمان تک بھی بڑھ جائیں تو اس عظیم و کریم رات کے صدقے اللہ معاف کر دیتا ہے۔ البتہ والدین کے نافرمان، شرابی و حرام کھانے والے کے گناہ معاف نہیں کرتا مگر اسے بھی توبہ کر لینے یا لوٹ آنے کی گنجائش دے دی گئی ہے کہ اگر وہ راہ راست پہ پلٹ آئے تو بخشش دیا جائیگا۔ سنن بیہقی میں ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کے اختتام پہ اللہ اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے کہ میرے ان بندوں نے اپنا فرض ادا کر دیا جو میں نے ان پر عائد کیا تھا اور میری عزت و علوشان اور میری بلند مقامی کی قسم میں انکی دعائیں ضرور پوری کروں گا۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب انکی جزا یہ ہے کہ مزدور کو اسکی پوری پوری مزدوری دے دی جائے۔ آنحضورؐ نے وصال سے قبل اپنے آخری اعتکاف کو بیس روز تک محیط کیا جس کی تفاصیل مختلف کتابوں میں ملتی ہیں لیکن پیغمبرؑ نے لوگوں کو آسانیاں دی ہیں۔ بیس روز سے دس روز، دس سے تین روز اور یہاں تک کہ ایک روز کا اعتکاف بھی منظورو مقبول ہے۔ عمومی طور یہ دس روز یعنی رمضان کے آخری عشرے میں جب اعتکاف کیا جاتا ہے تو جو ذہنی وروحانی مسرتیں معتکف کو ملتی ہیں شاید ہی کسی اور طور عبادت میں میسر آ سکیں۔ دل ایک گو نہ یادالہی کا عادی بن جاتا ہے پنجگانہ نماز کی پابندی سال چھ ماہ تو لازمی ہو جاتی ہے، خوف الہی آئندہ آنیوالے کئی مہینوں تک طاری رہتا ہے جس سے حرام، بددیانتی، جھوٹ بولنے، کینہ وحسد کرنے کے حصائص شکست ریختہ ہو جاتے ہیں۔ قدرت کی طرف معتکف کے دل میں نرمی وگدازی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایمان تازہ رہتا ہے اور قبل ازیں دل وجان کے جھروکوں سے شر کے وار کرنے والے شیاطین کے وسوسوں سے نجات حاصل ہو جاتی ہے جسکے ساتھ جہنم کی آگ، قبر کے عذاب، حساب کتاب کی سختی سے نجات کے حصول کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور یہی تو رمضان کے آخری عشرے کی نجات ہے۔ یہ نجات کا عشرہ ہے۔ نجات کے عشرے کا حصول یونہی نہیں ہو جاتا، اعتکاف نہ کرنیوالے بھی اللہ کے غضب سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ اس عشرے میں ایمان کی روشنی سے دلوں کو منور کریں۔ آیئے ذکروفکر، نفل و عبادت، تسبیح و تلاوت کا خصوصی اہتمام کریں۔ جس نے اللہ کے حضور تڑپ دکھا دی اس کا دامن خالی نہ رہے گا۔