کرپشن کیلئے پارلیمانی فیصلہ؟ پرویز رشید رانا مشہود
ایک بات مجھے برادرم پرویز رشید کی اچھی نہیں لگی۔ جبکہ وہ اپنی کئی باتوں کے لئے مجھے اچھے لگتے ہیں۔ ایک اچھے سیاستدان کی تعریف اور تنقید دونوں کے لئے کھلا دل رکھنا چاہئے۔ بڑا آدمی وہ ہے جو مدح اور مذمت کے لئے برابر کی حد تک بے نیاز ہو جائے۔ پرویز رشید نے کہا ہے کہ احتساب کا ادارہ کیسا ہی ہو سیاستدانوں کے لئے کرپشن کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ پہلی بات تو یہ کہ اب تک پارلیمنٹ نے کیا کیا ہے۔ کتنے پارلیمنٹیرین وزیر شذیر اور وزرائے اعظم کے لئے نیب نے انفارمیشن دی اور وہ پھر ڈس انفارمیشن کا شکار ہو گئی۔ اس میں مس انفارمیشن کے معاملات بھی آئے پھر تو ’’ستے ای خیراں‘‘ فوری طور پر آپ کا دھیان ایان علی کی طرف نہ چلا جائے اس لئے گزارش ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری دبئی چلے گئے ہیں۔ رحمان ملک بھی ان کے پاس چلا گیا ہے۔ اب عید منانے کے لئے بے چاری ایان علی پر کیا پابندی ہے؟ اس پر کروڑوں ڈالر دبئی لے جانے کا الزام ہے۔ اس کے لئے بھی پارلیمنٹ سے پوچھا جائے تو پھر خیر ہی خیر ہو گی۔ عدالت کیسا ہی ادارہ ہو، فیصلہ تو پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔
پرویز رشید نے بڑے کالم نگار ادیب منو بھائی اور تھیلسیمیا کے مریض بچوں کے لئے خون کی فراہمی کی تنظیم سندس فائونڈیشن کے صدر یٰسین خان کے درمیان بیٹھے ہوئے صحافیوں کے سیاسی سوالات کے جوابات دینے سے انکار کر دیا کہ آج ایک فلاحی تنظیم سندس فائونڈیشن کا ذکر ہو گا۔ اچھی بات ہے اور جرات کی بات بھی ہے۔ ورنہ جس فلاحی تنظیم نے افطاری دی، وزیر اطلاعات کو بلایا، اس کی خبر میڈیا پر نہ آئے اور روٹین میں بار بار کئے گئے سوالات کے جواب کی تکرار خبر بن جائے۔ پرویز رشید کی تقریر بھی سادہ اور آسودہ تھی۔ جس میں مخیر لوگوں سے اور سب لوگوں سے زکوٰۃ اور عطیات کی تاکید کی گئی تھی۔ صحافی دوستوں سے گزارش ہے کہ باخبر ہونا بھی ٹھیک ہے۔ اہل خبر بھی ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ دوسرا نقطہ لگائیں تو اہل خیر بنتا ہے۔ اور یہ بڑی نیکی ہے۔ میں ذاتی طور پر اس کے لئے پرویز رشید کا شکرگزار ہوں۔ میں سندس فائونڈیشن کے لئے کالم میں ذکر کر چکا ہوں۔ میں نے اس کے ساتھ امہ نصرت فائونڈیشن کا بھی ذکر کیا تھا کہ وہ بھی تھیلسیمیا کے مریض بچوں کے لئے خون کی فراہمی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس کے لئے مائرہ خان صدر ہے۔ ان کا نام پہلے کالم میں غلط شائع ہو گیا تھا۔ عمیر خالد اور شفیق الرحمن اس تنظیم کے ساتھ منسلک ہیں۔ امہ نصرت فائونڈیشن کے افتتاح کے لئے میں ان کے دفتر گیا تھا۔ محترم منو بھائی اور برادرم خاور نعیم ہاشمی بھی موجود تھے۔ آج بھی وہ موجود تھے۔ صدر پریس کلب ارشد انصاری وزیر اطلاعات پرویز رشید سے کوئی شکایت کر رہے تھے۔ مجھ سے برادرم ارشد انصاری نے پوچھا تو میں نے کہا وزیر اطلاعات کے لئے آپ کی بات شاید درست ہو مگر پرویز رشید تو ایک درویش آدمی ہے۔ بہادر صحافی خاور نعیم ہاشمی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پرویز رشید ایک بے بس آدمی ہے لہٰذا قابل معافی ہے۔ میں نے سوچا شکر ہے وہ بے حس نہیں ہے ورنہ حکمران اتنے بے حس ہوتے ہیں کہ دوسروں کو بے بس کرکے چھوڑتے ہیں؟
مجھے یاد آیا کہ نوائے وقت کی ہماری ایک دانشور کالم نگار استاد اور محقق ڈاکٹر راشدہ قریشی نے اپنے گھر پر ایک دعوت ارشد انصاری کے اعزاز میں کی تھی۔ وہاں بھی انصاری صاحب کی باتوں کا بڑا مزا آیا۔ پرنسپل وحدت کالونی کالج بھی آئے خواتین بھی موجود تھیں۔
حیرت ہے کہ پرویز رشید کے خلاف نیب کا کوئی نوٹس نہیں ہے وہ کرپٹ نہیں ہیں۔ وہ فنانشل کرپشن کے اہل ہی نہیں ہیں۔ یہ بھی کریڈٹ ہے ورنہ کرپشن تو ہر حکومت کے وزیروں کے پیچھے کسی آوارہ عورت کی طرح جھپٹتی ہے۔ اب نیب حکمرانوں، افسرانوں اور ان کے پروانوں کے خلاف معلومات اکٹھی کر رہا ہے۔ حکومتی جماعت کے 50فیصد سے زیادہ ارکان اور وزیر شذیر۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے تقریباً تمام اراکین وزیر شذیر سارے ’’دوست‘‘ اور تمام ماڈلز شامل ہیں۔ ایان علی سے ’’ایمان علی‘‘ تک سب پر شک کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں خاص طور پر رانا مشہود کا نام ہے۔ وہ پنجاب حکومت کے وزیر تعلیم ہیں۔ (و) ہٹا لیں تو باقی زیر تعلیم رہ جاتا ہے۔ رانا ثناء اللہ، رانا محمد ارشد اور سارے ’’رانے رانیاں‘‘ سارے وزیراعظم اور وزراء بھی شریک ہیں۔ رانا مشہود کے خلاف تو ایک ٹی وی چینل پر باقاعدہ وڈیوز چلی تھیں اینکر پرسن اور دوسرے لوگوں کو ہٹوا دیا گیا۔ اب کسے ہٹوایا جائے گا۔ شہباز شریف نے اپنی صفائیاں پیش کی ہیں۔ وہ رانا صاحبان کے صفایا کرنے کی کیا صفائی دیں گے؟
نوائے وقت کے ادارتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ حکمران خود اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کریں۔ مگر یہاں تو حکومتی لوگ نیب کے چیئرمین کے خلاف بیانات کی بھرمار کر رہے ہیں جیسے وہ تحریک انصاف کے چیئرمین ہوں۔ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین، شیخ رشید، اعظم سواتی، پرویز خٹک کے خلاف بھی نیب کو دھیان دینا چاہئے۔ نیب کے تحت عمران خان کی بجائے ریحام خان کے خلاف مقدمات بنائے جائیں گے۔ خیبر پختونخواہ کے وزیر شذیر تو تحریک انصاف سے بھی نکالے جا رہے ہیں۔ کیا نواز شریف مسلم لیگ ن کے حوالے سے کوئی ایسا فیصلہ کریں گے۔ شہباز شریف نے تو باقاعدہ رانا صاحبان کی حفاظت اور حمایت کا عزم کر رکھا ہے۔ مجھے تو حیرت سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے لئے ہے کہ انہوں نے نیب کے چیئرمین کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ صرف یہ بتا دیں کہ نیب کے چیئرمین کی پوسٹنگ کس نے کی ہے۔ ان کے خلاف بھی نوٹس ہے اور یہ سپریم کورٹ کے حکمنامے پر کیا گیا ہے۔ اس کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ نیب کرپشن کی انکوائری کر سکتا ہے۔ ایاز صادق کو کیا خطرہ ہے؟ اب تو دھاندلی کا دھندہ بھی ختم ہو رہا ہے۔ ایاز صادق نے خود کہا تھا کہ تمام صحافی مجھے ڈراتے تھے کہ تم ہار جائو گے۔ ایک بے نیازیاں والے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے مجھے حوصلہ دیا تھا۔ اب ایاز صادق کو کون ڈرا رہا ہے۔ مسلم لیگ کے کسی ’’رہنما‘‘ نے کہا ہے کہ نیب کو کوئی نہیں روک سکتا کہ فلاں سیاستدان کے خلاف انکوائری نہ کرو مگر آج تک کسی انکوائری کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے خلاف پہلے بھی یہ مقدمات تھے تو صدر مشرف نے این آر او کے ذریعے معاف کر دئیے اور وہ ایوان صدر پر قابض ہو گئے۔ مقدمات تو شریف برادران کے خلاف بھی تھے وہ تیسری بار وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق نیب نے کرپشن اور لوٹ مار کے اربوں روپے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں مگر یہ تو بتایا جائے کہ یہ روپے کس کس سیاستدان اور افسران سے برآمد کئے گئے ہیں جو اربوں روپے ان کے پاس اب تک ہیں وہ کہاں درآمد کئے گئے ہیں؟
برادرم افتخار احمد کی افطاری میں پہلے بھی برادرم پرویز رشید تھے۔ وہ نجم سیٹھی کے ساتھ سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ شاید نجم سیٹھی کو نیب کا چیئرمین بننے کا شوق ہے تاکہ وہ کرکٹ بورڈ میں کرپشن وغیرہ کی انکوائری اپنے خلاف خود کر سکیں۔ ایم این اے پرویز ملک بھی سامنے بیٹھے تھے۔ شائستہ پرویز ملک دھیرے سے آئیں اور دھیمے سے ملک صاحب کو سنا کے پرویز رشید سے کہنے لگیں پرویز بھائی ۔ آپ کا کیا حال ہے؟