• news

حکومت اپنا موقف مضبوط رکھے اور عالمی برادری کو بھارتی جنونی عزائم سے آگاہ کرے

سرتاج عزیز کا کشمیر کے بغیر بھارت سے مذاکرات نہ کرنے کا واضح عندیہ اور بھارتی ہٹ دھرمی کا تسلسل


پاکستان نے واضح طور پر باور کرایا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر بات کئے بغیر بھارت کے ساتھ باضابطہ مذاکرات شروع نہیں کئے جائینگے۔ اس سلسلہ میں مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز نے گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روس کے شہر اوفا میں شنگھائی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم میاں نوازشریف اور انکے ہم منصب بھارتی وزیراعظم مودی کے مابین ملاقات کے موقع پر بھی کشمیر کے معاملہ پر بات ہوئی ہے اور بھارتی قیادت پر واضح کردیا گیا ہے کہ کشمیر پر بات کئے بغیر بھارت سے مذاکرات نہیں کئے جا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ اعلامیہ میں بھی تمام حل طلب مسائل پر بات کرنے کا ذکر ہے اور پاکستان اور بھارت کے مابین سب سے اہم حل طلب مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت وزراء اعظم کی ملاقات کے بعد اب مذاکرات کی باضابطہ بحالی پر بات ہو سکتی ہے لیکن میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کئے بغیر دونوں ممالک کے مابین مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ انکے بقول دونوں سربراہان حکومت کے مابین ملاقات کو مذاکرات کا آغاز نہیں کہا جا سکتا۔ 10 جولائی کی ملاقات باضابطہ مذاکرات کا حصہ نہیں تھی تاہم اس کا مقصد یہی تھا کہ دونوں ممالک میں پائی جانیوالی کشیدگی کم کرکے باضابطہ مذاکرات کی جانب قدم بڑھایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی وزراء کے اشتعال انگیز بیانات اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے معاملات بھی بھارتی وزیراعظم مودی کے سامنے اٹھائے اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا جبکہ بھارتی وزیراعظم نے پاکستان پر سرحد پار سے دراندازی کا الزام لگایا۔ انکے بقول دونوں جانب سے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں اس لئے قومی سلامتی کے مشیر پہلے نئی دہلی اور پھر اسلام آباد میں ہونیوالی ملاقاتوں میں انہی موضوعات پر بھارت سے بات کرینگے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین شروع دن سے ہی کوئی تنازعہ پیدا ہوا تو وہ کشمیر کا تنازعہ ہے جو خود پاکستان کی سالمیت پارہ پارہ کرنے کے عزائم رکھنے والی بھارتی ہندو لیڈر شپ نے کھڑا کیا تھا ورنہ تو تقسیم ہند کے فارمولا کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کا قیام پاکستان کے وقت ہی پاکستان کے ساتھ الحاق ہو چکا ہوتا جس کے بعد دونوں ممالک میں کسی اور تنازعہ کی گنجائش ہی نہ نکلتی۔ اگر بھارتی لیڈروں کے دل میں پاکستان کیخلاف کوئی بغض نہ ہوتا اور وہ اسے ایک آزاد اور خودمختار مملکت تسلیم کرکے پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت پاکستان کے ساتھ سفارتی‘ تجارتی اور ثقافتی تعلقات استوار کرلیتے تو آج یہ خطہ امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بن کر اقوام عالم میں ترقی یافتہ مہذب ممالک کی صف میں نمایاں کھڑا نظر آتا مگر اکھنڈ بھارت کے پرچارک بھارتی لیڈران کو پاکستان کی تشکیل ہی گوارا نہیں ہوئی تھی اس لئے انہوں نے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی نیت سے کشمیر پر اپنا تسلط جمانے اور پاکستان کے ساتھ اس کا الحاق نہ ہونے دینے کی سازش تیار کی جسے عملی جامہ پہنانے کی آج بھی تگ و دو جاری ہے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کشمیر کا تنازعہ کھڑا کرکے اقوام متحدہ جا پہنچے مگر یو این جنرل اسمبلی نے انکی درخواست پر قرارداد منظور کرکے کشمیریوں کے استصواب کے حق کو تسلیم کرلیا جس کا بعدازاں جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی پانچ مزید قراردادوں میں اعادہ کیا گیا مگر بھارت کشمیری عوام کو مشق ستم بناتے ہوئے آج تک انکے استصواب کے حق کو غصب کئے ہوئے ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے قطعی برعکس اپنی سات لاکھ فوجوں کے ذریعے وادیٔ کشمیر کے بڑے حصے پر اپنا تسلط جما کر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے چکا ہے بھارتی لیڈران آج بھی اپنی اس ڈھٹائی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں بلکہ نریندر مودی کی قیادت میں موجودہ بھارتی حکومت تو پاکستان سے ملحقہ آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر بھی شب خون مارنے کے مذموم عزائم رکھتی ہے جس کا بھارتی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کی جانب سے انکے متعدد بیانات کی صورت میں اظہار بھی کیا جا چکا ہے اور خود مودی بھی پاکستان دشمنی کو فروغ دینے کی حکومتی پالیسیوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ اس تناظر میں واحد مسئلہ کشمیر ہی ہے جو پہلے بھی بھارت کی جانب سے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرنے اور سقوط ڈھاکہ کی شکل میں پاکستان کو دولخت کرنے کی نوبت لا چکا ہے جبکہ اب بھارت باقیماندہ پاکستان کی سالمیت کے درپے ہے تو مسئلہ کشمیر ہی اس کا سبب ہے۔ اسی دیرینہ مسئلہ نے پاکستان اور بھارت کے مابین پانی‘ سرکریک‘ سیاچن اور سرحدی کشیدگی کا باعث بننے والے دوسرے تنازعات پیدا کئے اس لئے اگر پاکستان اور بھارت کے مابین سازگار ماحول کی بحالی کیلئے مذاکرات ہونے ہیں تو تنازعۂ کشمیر کا حل ہی ان مذاکرات کا ایجنڈا ہو سکتا ہے۔
چونکہ یہ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا معاملہ ہے اس لئے قوم کو حکمرانوں کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کی مفاہمت ہرگز گوارا نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے قوم نے اس ناطے سے ہی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں کہ پاکستان کی بانی جماعت کی قیادت تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل اور پاکستان کے وجود کی بقاء کی خاطر پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں کر سکتی۔ اگر قوم کو حکومت کی جانب سے اس معاملہ میں بھارت کیلئے کسی نرم گوشہ یا کشمیر پر پاکستان کے اصولی اور مضبوط موقف میں کسی کمزوری کا عندیہ ملتا ہے تو اسے جہاں حکومتی پالیسیوں سے مایوسی ہوتی ہے وہیں پاکستان کی سالمیت کے معاملہ میں خدشات بھی جنم لیتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کا تحفظ مضبوط ہاتھوں میں ہے بھی یا نہیں۔ کشمیری عوام بھی پاکستان کی قیادتوں کے ساتھ یہی توقعات باندھے رکھتے ہیں کہ وہ انکی جدوجہد آزادی کا دامے‘ درمے‘ سخنے ساتھ دیئے رکھنے میں کوئی کمی واقع نہیں ہونے دینگے۔ مشرف کی جرنیلی آمریت اور پیپلزپارٹی کے سابقہ دور میں کشمیری عوام اور لیڈران اسی تناظر میں پاکستان سے مایوسی کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مشرف نے کمپوزٹ ڈائیلاگ کے ذریعہ کشمیر کو پلیٹ میں رکھ کر بھارت کے حوالے کرنے کی کوشش کی مگر توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے بھارتی لیڈران کو ان کا یہ یکطرفہ فارمولا بھی قبول نہ ہوا جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنے دور حکومت میں مسئلہ کشمیر 30 سال کیلئے منجمد کرنے کی عاجلانہ تجویز پیش کرکے پاکستان اور کشمیر کے عوام کو مایوس کیا۔ اسی طرح اب میاں نوازشریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے بھارت کیلئے یکطرفہ وارفتگی اور ملکی و قومی مفادات کے قطعی برعکس اپنے اس دیرینہ مکار دشمن کے ساتھ دوستی و تجارت کی خواہش کو عملی جامہ پہانے کے اقدامات نے بھی پاکستان اور کشمیر کے عوام کو مایوس کیا ہے۔ اسکے برعکس بھارتی وزیراعظم مودی نے پاکستان دشمنی پر مبنی اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق پاکستان کی سالمیت پارہ پارہ کرنے کا حکومتی ایجنڈا تیار کرکے اسے عملی جامہ پہنانے کے تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے شروع کر رکھے ہیں جس کے کھلم کھلا اظہار میں بھی وہ کسی قسم کا حجاب محسوس نہیں کرتے۔ اپنی اس ذہنیت کے ماتحت ہی مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم نوازشریف کو مدعو کرکے سرحد پار سے دراندازی کے حوالے سے ان پر الزامات کی بوچھاڑ کی اور سفارتی ادب آداب کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا۔ پھر انہوں نے یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس اور سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر نہ صرف وزیراعظم پاکستان سے ملاقات سے دانستاً گریز کیا بلکہ ممبئی حملوں کے تناظر میں پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے کے زہریلے پروپیگنڈا میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ صرف یہی نہیں‘ عالمی برادری میں سے جس بھی فورم اور جس بھی حکومتی سربراہ کی جانب سے بھارت سے مسئلہ کشمیر کے حل کا تقاضا کیا جاتا ہے تو بھارتی لیڈران اس پر ناک بھوں چڑھاتے نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان بھارت دوطرفہ مذاکرات کے ذریعہ ہی حل ہونا ہے۔ اس کیلئے وہ شملہ معاہدے کا سہارا لیتے ہیں مگر جب کسی بھی سطح پر دوطرفہ مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو بھارت کشمیر کا ذکر ہوتے ہی بدک جاتا ہے۔ اس طرح پاکستان بھارت مذاکرات کی ہر میز بھارت کے ہاتھوں رعونت کے ساتھ الٹائی گئی ہے۔ اس معاملہ میں بھارت آج بھی اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹا ہوا نظر آتا ہے اور ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے مشیر خارجہ پاکستان سرتاج عزیز کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ نواز مودی ملاقات کا اعلامیہ ہی پاکستان اور بھارت کے مابین بات چیت کی بنیاد پر ہوگا۔
اگرچہ مشیر امور خارجہ نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں نواز‘ مودی ملاقات کے تناظر میں ہی واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے بغیر پاکستان بھارت سے کوئی مذاکرات نہیں کریگا۔ انکے بقول اس ملاقات میں بھی پاکستان نے بھارتی وزیراعظم سے کشمیر کے معاملہ پر بات کی جبکہ حقیقت یہی ہے کہ اس ملاقات کے حوالے سے جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیہ میں بھارت نے کشمیر کا لفظ تک استعمال نہیں ہونے دیا جس کا یہ پیغام دینا ہی مقصود ہے کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے۔ اگر بھارت نے مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ایجنڈے میں باضابطہ طور پر شامل ہی نہیں ہونے دینا تو پھر ان مذاکرات کی کوئی اہمیت بنتی ہے نہ ضرورت۔ سرتاج عزیز نے اس حوالے سے یہ باور کراکے پاکستان کے موقف کی درست وکالت کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے بغیر بھارت سے کوئی مذاکرات نہیں ہونگے۔ اسی طرح نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن آفس کی جانب سے حریت قیادت کو 21 جولائی کی عید ملن پارٹی میں مدعو کرکے بھی بھارت کو کشمیر ایشو پر مسکت جواب دیا گیا ہے۔ حکومت کو پاکستان بھارت مذاکرات کے حوالے سے اپنے موقف پر ڈٹے رہنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے عالمی فورموں کو بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور پاکستان کی سالمیت کیخلاف اسکے جنونی عزائم سے مؤثر انداز میں آگاہ کرنا چاہیے۔ موجودہ بھارتی عزائم کی موجودگی میں ہر قیمت پر پاکستان کی سلامتی کا تحفظ ہی ہمارا مطمعٔ نظر ہونا چاہیے اور یو این قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل اس کا لازمی جزو ہے۔

ای پیپر-دی نیشن