عید کی آمد : ’’عافیت‘‘ میں مقیم 26 بزرگ مرد و خواتین کی دکھ بھری داستانیں
لاہور (رفیعہ ناہید اکرام) عیدالفطرکی پُرمسرت ساعتوں کے قریب آتے ہی محکمہ سوشل ویلفیئر پنجاب کے زیر انتظام ٹاؤن شپ میں بے سہارا بزرگوں کیلئے قائم ادارے’’عافیت‘‘ کے در و دیوار یہاں مقیم 26 بزرگ مرد و خواتین کی آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں سے لرزنے لگے ہیں، عید منانے کیلئے ادارے نے نئے کپڑے، جوتے، نقد رقوم، چوڑیاں اور مہندی سمیت تمام لوازمات فراہم کر دئیے ہیں۔ عید پکوانوں کے مینیو بھی تیار مگر ان کے چہروںپر اطمینان، خوشی اور جوش و خروش کی بجائے ناامیدی، اداسی، بے بسی اور حسرتیں دکھائی دے رہی ہیں۔ آہیں، سسکیاں اور ہچکیاںآنسو بن کر ٹپکتی ہیں۔ بیٹوں، بیٹیوں، بہوؤں اور بہن بھائیوں نے اس انداز سے ڈسا ہے کہ احوال بتانے کیلئے ان کے پاس الفاظ نہیں۔ رندھے ہوئے لہجے اور چھلکتی پلکیں اولاد، عزیز و اقارب کی بے اعتنائیوں اور عید کے موقع پر بھی ’’بھلا دئیے جانے‘‘ کے کرب کی داستانیں سناتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹے بنکوں یا سرکاری محکموں میں اعلیٰ افسر ہوں تو ’’عافیت‘‘ میں مقیم والدین کو احوال بتانے کیلئے ایک بھی لفظ بولنے کی ضرورت نہیں۔ 65 سالہ روبینہ بھٹی اور 70 سالہ صادق بھٹی نے زار و قطار روتے ہوئے بتایا کہ قیمتی جائیداد بیٹوںکے نام کر دی وہ اسے بیچ کر بیرون ملک چلے گئے اور ہمیں بیدخل کر دیا، ایک بیٹا جوکسی بنک کا وائس پریذیڈنٹ ہے اس کی بیوی ہمیں برداشت نہیں کرتی جس پر ہم یہاں آ گئے۔ معراج بیگم کے چاروں بیٹے تعلیم یافتہ اور اچھے عہدوں پر فائز ہیں چھوٹے بیٹے نے دس مرلے کے گھر پر قبضہ کر کے ماںکو ڈنڈوں سے مار مار کر گھر سے نکالا تو محلے داروں نے ’’عافیت‘‘ پہنچا دیا، بیٹیاں ائر ہوسٹس اور سکول ٹیچر ہیں مگر وہ دامادوں کے گھروں میں جا کر رہنا پسند نہیں کرتیں، بھیگے لہجے میں انہوں نے بتایا کہ عید کے موقع ماضی میں گزرنے والی تمام عیدیں یاد آ جاتی ہیں جب میں اپنے ہاتھوں سے بچوں کی تیاریاں کیا کرتی تھی اور فرمائشیں پوری کرتی تھی مگر انہیں میری کبھی یاد نہیں آتی۔ خلاؤں میں گھورتے ہوئے ستر سالہ زینت نے بتایا کہ میں نے شادی نہیںکی بھتیجے کے پاس رہتی تھی باقی رشتہ دار ملک سے باہر ہیں عید پر سبھی یاد آتے ہیں مگر کوئی کسی کا نہیں۔ مسرت عالم نے بتایا کہ شوہر انجینئر تھے انکی وفات کے بعد بے سہارا ہو گئی ہوں، بہن بھائی دوسرے شہروںمیں رہتے ہیں مگر سبھی اپنی اپنی دنیا میں گم ہیں، اولاد نہیں اب یہاں ہی زندگی گزر رہی ہے۔ گلناز بیگم نے بتایاکہ طلاق کے بعد پہلے بچے کو لے کر دارالفلاح میں رہی بعد میں بیٹا انجمن سلیمانیہ کے ادارے میں رہنے لگا اب وہ ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے عید پر ملنے آئے گا تو اس کے ساتھ بہن سے ملنے جاؤں گی۔