سلامتی کونسل نے ایران سے جوہری معاہدہ کی متفقہ توثیق کر دی: فوجی آپشن بھی موجود ہے: امریکی وزیر دفاع
نیویارک (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر ایران اور 6عالمی طاقتوں کے درمیان تاریخی جوہری معاہدے کی توثیق کردی ہے۔ متعدد ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جن سے ایران پر عائد پابندیاں ختم ہوجائینگی۔ امریکی تیارکردہ قرارداد کے حق میں 15اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ قرارداد کے مطابق اگر ایران اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا تو یہ دوبارہ عائد ہوجائینگی۔ پانچ بڑی طاقتیں اور جرمنی پہلے ہی اس معاہدے کی منظوری دے چکی ہے۔ سلامتی کونسل کے 10غیرمستقل ارکان کو معاہدہ کے متن سے آگاہ کیا گیا جنہوں نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ سلامتی کونسل میں ووٹنگ معمول کے پروگرام سے قبل ہوئی کیونکہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ چاہتے تھے کہ یہ منظوری ملنے کے بعد وہ برسلز میں اس معاہدے پر بحث کریں۔ اس معاہدے کے تحت ایرانی ایٹمی پروگرام ایک دہائی تک رکا رہے گا جس کے نتیجے میں اربوں کھربوں ڈالر کی عالمی پابندیاں ختم ہو جائینگی اس سال کے آخر تک ایران معیشت پر سے توانائی، مالیاتی شعبے کی پابندیاں ختم ہو جائینگی۔ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کے ماطبق اگر ایران معاہدے کی اصل روح کے مطابق پابندی کرتا ہے تو 2006ء سے عائد پابندیاں آہستہ آہستہ ختم ہو جائینگی۔ واضح رہے کہ جوہری ماہدہ اقوام متحدہ کی منظوری سے مشروط تھا۔ امریکی صدر اوباما نے سلامتی کونسل کی جانب سے معاہدے کی توثیق کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ کانگرس بھی اس کی منظوری دیدے گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ یہ توثیق ایک واضح پیغام ہو گا کہ زیادہ تعداد میں ممالک یہ مانتے ہیں کہ ڈپلومیسی ہماری مضبوط ترین اپروچ اور اس بات کی ضمانت ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرے گا۔ اس پر زیادہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور کانگرس اس وسیع البنیاد اتفاق رائے کی جانب توجہ دے گی۔ واضح رہے کہ ری پبلیکن اکثریت والی کانگریس اس معاہدے کے بارے میں زیادہ تر پُرجوش نہیں اس کا خیال ہے کہ اس میں ایران کے بُرے رویہ کا اسے اجر دیا گیا ہے۔ اوباما نے کہا کہ ایرانی جوہری معاہدہ درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ سلامتی کونسل سے جوہری معاہدے کی توثیق واضح پیغام ہے۔ توثیق نے ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کی پابندی مزید مضبوط بنا دی۔ سلامتی کونسل نے مہر ثبت کر دی ہے۔ ایران ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ وائٹ ہائوس نے کہا ہے کہ اگر ایران نے دھوکہ دیا تو فوجی کارروائی سمیت امریکہ کے سامنے تمام آپشنز کھلے ہونگے۔ وائٹ ہائوس میں ہفتہ وار خطاب میں اوباما نے کہا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ماضی کی تمام کوششوں سے بڑی کاوش ہے، ایران کسی بھی صورت معاہدے سے روگردانی نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں جانچ کا بہت جامع عمل وضع کیا گیا ہے، خلاف ورزی کی صورت میں ایران پر پہلے سے عائد تمام پابندیاں دوبارہ نافذ العمل ہو جائیں گی۔ ایران معاہدے سے پھرتا ہے تو اس کی معیشت کو مخدوش کر دینے والی اقتصادی پابندیاں دوبارہ نافذ العمل ہو جائیں گی۔ اس معاہدے کے بغیر دنیا کو اس خطے میں ایک اور بڑی جنگ کا خطرہ لاحق ہوتا۔ معاہدے کا مسودہ محکمہ خارجہ نے کانگرس کو بھیجا ہے جس کے پاس معاہدے کا جائزہ لینے کے بعد اسے منظور یا مسترد کرنے کے لیے 60 روز کا وقت ہے۔ری پبلکن حلقے پہلے ہی معاہدے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ پارٹی کے کئی رہنما معاہدے کو مسترد کرنے کی دھمکی بھی دیتے آئے ہیں۔معاہدے کی منظوری کے لیے اوباما انتظامیہ کانگریس کے زیادہ سے زیادہ ڈیموکریٹ ارکان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ری پبلکنز کی سخت مخالفت کا توڑ کیا جاسکے۔ساتھ ہی صدر اوباما واضح کرچکے ہیں کہ اگر کانگرس نے معاہدے کو مستردکیا تو وہ کانگرس کے اقدام کو ’’ویٹو‘‘ کردیں گے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم نے امریکی کانگرس کے ارکان سے اپیل کی ہے کہ وہ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ رد کردیں۔ ’’سی بی ایس‘‘ کے پروگرام ’’فیس دی نیشن‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ مجوزہ معاہدہ ان طریقوں میں شامل نہیں بلکہ یہ ایران کی ’’دہشت گردی میں اضافے‘‘ کا موجب ہوسکتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اگر کانگرس نے معاہدہ منظور کرلیا تو وہ خودکشی کرلیں گے۔ ری پبلکن حلقے پہلے ہی معاہدے پر کڑی تنقید کررہے ہیں۔ نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ ایران سے عالمی طاقتوں کا ایٹمی معاہدہ ہر صورت روکیں گے۔ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر جو مشرق وسطیٰ کے دورہ پر ہیں آج اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کریں گے اور صدر اوباما کا پیغام پہنچائیں گے۔ پہلے مرحلے میں وہ اسرائیل پہنچے ہیں اور اسرائیلی وزیر دفاع سے ملاقات کرکے انہیں اعتماد میں لیا ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام کا اس معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایران اپنے وعدے پورے کرنے کا پابند ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ آیت اللہ علی خامنہ ای کے فتویٰ کے مطابق ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق بیلسٹک میزائل خالصتاً دفاعی مقاصد کے لئے ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کے میزائل 2000کلو میٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ اسرائیل بھی اس کی زد میں آتا ہے۔ ایران جوہری معاہدے پر امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر نے ردعمل میں کہا ہے کہ ایران معاہدے کی توثیق بُرے سمجھوتے کا بُرا آغاز ہے۔ عوام توقع کرتے ہیں ان کے نمائندے معاہدے پر نظرثانی کریں گے۔دریں اثناء ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس نینسی پلوسی نے اپنے ساتھیوں کے نام خط میں کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدے کی حمایت کریں۔
نیویارک (نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں+ نیٹ نیوز) امریکی وزیرِ دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے کے باوجود ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کا راستہ بند نہیں ہوا۔ اسرائیل ایران کے ساتھ معاہدے کا پابند نہیں، صہیونی ریاست کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ اسرائیل سمیت سعودی عرب اور اردن کے دورہ میں مصروف امریکی وزیر دفاع نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ انہیں اسرائیلی سوچ بدلنے کی امید نہیںہماری کوشش ہوگی کہ اسرائیل کو یقین دلائیں کہ اسے تحفظ فراہم کرنے کا امریکی عزم پوری طرح برقرار ہے۔ ایشٹن کارٹر نے کہا کہ یہ اچھا معاہدہ اس لیے ہے کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی وجہ سے فوجی آپشن کا استعمال نہ کیا جا سکے۔ اس سے خطے میں خطرے اور عدم استحکام کا اہم عنصر ختم ہو جاتا ہے۔‘ ایران اور چھ عالمی قوتوں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے مطابق ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرے گا جس کے عوض اس کے خلاف پابندیوں میں بھی کمی کی جائے گی۔ خیال رہے کہ اس معاہدے کی اسرائیل نے شدید مخالفت کی ہے اور وزیراعظم نیتن یاہو نے اسے ’تاریخی غلطی‘ قرار دیا تھا۔ دریں اثناء سعودی عرب نے اپنے وزیر خارجہ عادل الجبیر کو وائٹ ہاؤس بھیجا ہے جہاں انہوں نے صدر اوباما سے ملاقات کی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ ملاقات میں رواں ہفتے ایران کے جوہری معاہدے اور اس کے تناظر میں سکیورٹی تعاون کو بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔"بات چیت میں قریبی اور دیرینہ شراکت داری کو مزید بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال ہوا۔"ترجمان نے تفصیلات تو فراہم نہیں کیں کہ کس طرح امریکہ فوجی اعانت میں اضافہ کرے گا لیکن ان کا کہنا تھا کہ مئی میں کیمپ ڈیوڈ میں خلیج تعاون کونسل اور سعودی عرب کے اعلیٰ عہدیداروں سے ہونے والی صدر اوباما کی مشاورت کی بنیاد پر امور آگے بڑھیں گے۔ ایران کے لئے رویے میں نرمی پر سعودی رہنما امریکہ پر تنقید کر چکے ہیں کیونکہ انہیں شبہ ہے کہ پابندیوں کو نرم کرنے سے تہران خطے بشمول یمن کو غیرمستحکم کرنے کے لئے "مالی اعانت" میں اضافہ کرے گا۔سعودی عرب اس بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کر چکا ہے کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکے گا۔ لیکن اس سب کے باوجود نہ تو سعودی عرب نے کھل کر اس معاہدے پر تنقید کی ہے اور نہ ہی توثیق۔ صدر اوباما اور سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا تھا کہ دونوں نے معاہدے کا "خیرمقدم" کیا جو کہ جب "مکمل طور پر نافذ ہو جائے گا تو جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے ایران کے تمام راستوں کو بند کر دے گا۔