پیپلز پارٹی کا اجلاس، سندھ کابینہ ردوبدل کی تجاویز: صوبائی حکومت سیلاب سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرے: بلاول
دبئی (نوائے وقت رپورٹ+ آن لائن) پیپلز پارٹی کا دبئی میں اجلاس ہوا جس میں سندھ کابینہ میں ردوبدل کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ کارکردگی نہ دکھانے والوں سے وزارتیں لئے جانے کا امکان ہے۔ ابتدائی ناموں میں شرجیل میمن، گیان چند، سہیل سیال، منظور وسان کے نام سامنے آئے ہیں جن سے خراب کارکردگی وزارتیں واپس لی جاسکتی ہیں۔ اجلاس میں سندھ بیوروکریسی میں بھی اعلیٰ پیمانے پر ردوبدل کی سفارش کی گئی۔ نجی ٹی وی نے بتایا کہ اجلاس میں صوبے کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ سندھ میں امن و امان کی صورتحال پر جن لوگوں نے ڈیلیور نہیں کیا اُنکی وزارتیں تبدیل کئے جانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ دریں اثناء چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے چترال میں سیلاب سے جانی و مالی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ محکمہ موسمیات کے مطابق سندھ کے بالائی علاقوں میں سیلاب کا امکان ہے۔ سندھ حکومت ممکنہ سیلاب سے نقصانات سے قبل تیاریاں کرے۔ متعلقہ ادارے اپنے اپنے علاقوں میں الرٹ رہیں اور ممکنہ سیلابی صورتحال پر نظر رکھیں۔ دریائے سندھ کے حساس حصوں پر نظر رکھی جائے، بندوں اور پشتوں کی مرمت کا کام مکمل کیا جائے، کچے کے علاقوں سے نقل مکانی کے انتظامات کئے جائیں۔ سابق صدر زرداری نے بھی سیلاب سے نقصانات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے ہوم گرائونڈ سندھ میں اپنی ہچکولے کھاتی حکومت کو بچانے کیلئے آخری کوششیں کرتی نظر آتی ہے۔ دوبئی میں گزشتہ شام ہونے والے اجلاس میں اس ضمن میں اہم فیصلوں کی توقع کی جا رہی ہے جس میں ’’بزرگ‘‘ وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی جگہ ’’نوجوان‘‘ وزیراعلیٰ کے تقرر سمیت وزراء کے محکموں میں ردوبدل، سندھ میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قریبی تعاون پر غوروخوض ہوا۔ اجلاس کی اہم بات یہ تھی کہ اسکی آصف زرداری اور بلاول زرداری نے مشترکہ طور پر صدارت کی جبکہ اجلاس کے ٹیلیویژن سکرین پر دکھائے جانے والے مناظر پر پارٹی کے سینئر رہنمائوں نے خیال ظاہر کیا کہ باپ بیٹا سندھ میں پی پی پی کی تنظیم نو کے حوالے سے یکسو نہیں ہیں۔ آصف زرداری اور انکی ہمشیرہ فریال تالپور کے ملک سے ’’خود ساختہ دوری‘‘ اختیار کرنے پر پارٹی کے اندر مختلف دھڑوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کیونکہ ان دھڑوں کا خیال ہے کہ سندھ میں ہچکولے کھاتی پیپلز پارٹی کی حکومت کی فوج سے مبینہ مخاصمت اس امر کی متقاضی ہے کہ قیادت ’’مشاورت‘‘ سے ایسے فیصلے کرے جس سے پارٹی کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔ پارٹی کے بعض رہنمائوں نے پارٹی کی ’’موجودہ مشکلات‘‘ کی وجہ شریک چیئرمین کی اسلام آباد میں کی گئی عسکری قیادت کے خلاف تقریر کو قرار دیا جس کے ردعمل میں نیب اور ایف آئی اے نے پیپلز پارٹی کے کرپٹ عناصر کیخلاف بند فائلیں کھول کر کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ دوسری طرف آصف زرداری کی ایم کیو ایم سے قربت بھی عسکری قیادت کیلئے قابل قبول نہیں کیونکہ ’’را‘‘ سے قربت اور بھارت سے مالی تعاون کی خبروں کے بعد فوج ایم کیو ایم اور اسکی قیادت کو ملک دشمن تصور کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری کی تمام تر خواہش کے باوجود ایم کیو ایم ابھی تک سندھ حکومت کا حصہ نہیں بن سکی۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پیپلز پارٹی کی اندرونی توڑپھوڑ سے خوش نظر آتی ہے اور ایم کیو ایم کے حوالے سے فوج کے ساتھ ہے۔ دوسری طرف بلاول کو سیاست کے عملی میدان میں قدم رکھتے ہی اپنی والدہ کی طرح بڑے بڑے سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ زرداری کے پانچ سالہ دور حکمرانی کے بعد پارٹی تاریخ کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ بلاول پارٹی میں ایسی قیادت کو سامنے لانا چاہتے ہیں جو پی پی کے فلسفے اور سیاسی دھارے سے مطابقت رکھتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول نے اپنے ’’انکلز‘‘ سے رابطہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق چاروں صوبوں میں پارٹی کے بنیادی ورکرز اور رہنمائوں سے رابطے کئے جاچکے ہیں۔ ایک ایسے موقع پر جب ملک بالعموم اور سندھ بالخصوص سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے، بلاول زرداری کو پچھلے سال کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کو دہرانا چاہتے ہیں جس نے انکی لیڈرشپ کو عوامی قبولیت کا درجہ دیا تھا مگر بدقسمتی سے اسوقت وہ بھی اپنے باپ کے ہمراہ دوبئی پہنچے ہوئے ہیں البتہ انکی جلد واپسی متوقع ہے۔