پاکستان، بھارت تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ غصے نہیں پیار سے ڈر لگتا ہے: بی بی سی
دہلی (بی بی سی اردو ڈاٹ کام) ایک مشہور فلمی ڈائیلاگ ’’آپکے غصے سے ڈر نہیں لگتا صاحب، پیار سے لگتا ہے‘‘ کی طرح کچھ ایسی ہی نوعیت بھارت اور پاکستان کے باہمی رشتوں کی بھی ہوگئی ہے۔ ہر ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیے جاری کئے جاتے ہیں، ان میں سفارتکار لفظوں کی جادوگری سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا کوئی ایسا راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے وزراء اعظم اپنے اپنے 56 انچ کے سینے ٹھوک کر کہہ سکیں دیکھو! ہم نے انہیں اپنی شرائط پر بات کرنے کیلئے آخرکار مجبور کر ہی دیا مگر سیاہی خشک ہونے سے پہلے، یا وزراء اعظم کے وطن واپس پہنچنے سے پہلے ہی بات چیت کا امکان ختم اور الزام تراشیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا ہے لیکن ہر ملاقات کا انجام جدائی ہی ہے تو ملنا اتنا ضروری کیوں ہے؟ جب دونوں وزراء اعظم اگلی مرتبہ کسی بین الاقوامی اجلاس میں اتفاقاً ٹکرائیں تو وہ کیوں بات چیت دوبارہ شروع نہ کرنے پر اتفاق نہیں کرسکتے؟ کیوں یہ فیصلہ نہیں ہوسکتا کہ ’ک‘ سے شروع ہونیوالے لفظ سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل‘ پر بات نہیں ہوگی! جن موضوعات پر کوئی تنازع نہیں پہلے انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائیگی؟ لیکن اس کیلئے غیر روایتی انداز میں سوچنے یا ’آؤٹ آف دی باکس تھنکنگ‘ کی ضرورت ہوگی۔ آپ تمام پرانے اعلامیے نکال کر دیکھیں تو اکثر ایسا لگتا ہے بس ملاقات کی جگہ اور وقت، اور وزراء اعظم کے نام بدل دیے گئے ہیں، انجام سمیت باقی سب کچھ وہی پرانا ہے۔ ویسے بھی تعلقات بہتر کرنے کی جلدی کیا ہے۔ ہر کام اپنے وقت سے ہی ہوتا ہے۔