جمعرات‘ 6شوال ‘ 1436ھ ‘ 23 جولائی 2015ئ
داعش نے خودکش بمبار کے طور پر مرغی کا استعمال شروع کر دیا
بے شک دنیا نے ترقی کر لی مگر کیا آج تک کسی بھی بڑے سے بڑے ترقی یافتہ ملک نے مرغی کے اس طریقہ استعمال کا سوچا بھی ہے۔ یہ ہمارے داعش کے جری اور زیرک دماغوں کا ہی کمال ہے کہ انہوں نے روسٹ بنانے چوزے نکالنے اور انڈے حاصل کرنے کے علاوہ بھی مرغی کے استعمال کا یہ زریں نسخہ ایجاد کر لیا ہے۔
کتابوں کہانیوں میں ہم سب نے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کا ذکر سنا ہے۔ مکانوں اور محلات کی چھت پر نصب مرغ باد نما کو دیکھا بھی ہے۔ شاعری میں مرغان سحر سے لےکر مرغے کی بانگ تک کا چرچا سنا اور دیکھا بھی ہے۔ مگر اس خودکش بمبار مرغی کی تو بات ہی نرالی ہے۔ اس کی آن بان شان دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔بس اختلاف یہ ہے کہ آخر مرغی ہی کیوں بمبار بنی۔ مرغے میں کیا خرابی ہے کہ وہ خودکش بمبار نہ بن سکا۔
جب ایک البیلی الھڑ خوبصورت مرغی اپنے پروں تلے بم دبا کر یا خود کش جیکٹ پہن کر کسی بازار میں مخالف حریف کے علاقے میں یا تجارتی مرکز میں چلی آتی ہو تو کتنے مرغی چوروں کا ایمان بحال یا قائم رہ سکتا ہے۔ کوئی نہ کوئی مفت خورہ تو اسے قابو کرنے کے لئے پہل کرے گا ہی پھر اس کے بعد چاہے چراغوں میں روشنی نہ رہے۔ خودکش مرغی تو اپنا مشن مکمل کرکے جماعت اسلامی کے سابق امیر کے فلسفے کے مطابق شہدا کی صف میں جگہ بنا لے گی ۔
یہ کام گدھے یا گھوڑے‘ بکرے‘ بکری‘ بھینس‘ بیل حتیٰ کہ اونٹ سے بھی لیا جا سکتا ہے مگر نجانے کیوں داعش کے اعلیٰ دماغوں میں ان کا خیال نہیں آیا حالانکہ بڑے جانوروں میں زیادہ آتش گیر مواد رکھا جا سکتا ہے۔ شاید وہ سستی مرغی سے کام چلا کر پیسے بچانے کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں تاکہ داعش کا خزانہ یونہی بھرا رہے۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
پاکستانی دنیا کی دوسری باتونی قوم، جنوبی افریقہ والے پہلے نمبر پر ہیں۔سروے
افسوس صد افسوس کہ جنوبی افریقہ والے ہم سے بازی لے گئے۔ یہ اعزاز ان کے حصے میں آیا۔ ورنہ ہماری قوم ہر لحاظ سے اس عالمی اعزاز کے لائق ہے۔ لگتا ہے سروے کرنے والے ادارے میں کچھ کالی بھیڑیں شامل تھیں جنہوں نے جنوبی افریقہ سے سازباز کرکے انہیں پہلی پوزیشن دلا دی۔ ورنہ ہمارا حریف کون ہو سکتا ہے۔ پوری قوم کو ہر وقت باتوں کی عادت پڑ چکی ہے۔ بے وجہ بے تکی باتیں شکوے شکایتیں‘ چغلیاں نجانے کیا کیا گھروں سے لے کر بازاروں اور دفاتر اور سفر میں بھی یہ قوم چپ نہیں رہتی۔ یہ سراسر دھاندلی شاید دھاندلا ہوا ہے سروے میں۔ قوم کی تو بات چھوڑیں ہمارے حکمرانوں کے بیانات ہی اگر مرتب کئے جائیں تو معلوم ہو گا کہ باتوں کے لحاظ سے ہمارے حکمران ہی سب پر بھاری ہیں۔ وہ جتنی باتیں کرتے ہیں ان کا ریکارڈ شاید ہی کسی اور ملک کے حکمران توڑ سکیں۔
اب بھی موقع ہے اگر کارکردگی اور بیانات میں فرق کا کوئی ادارہ سروے کرائے تو بفضل تعالی ہمارے حکمران ہمارا سر پوری عالمی برادری میں اونچا کر سکتے ہیں۔
کیونکہ باتوں کا دعوﺅں کا وعدوں کا ان کا ریکارڈ شاید ہی کوئی توڑ سکے۔
بہرحال ہمیں اس برس اپنی ناکامی سے دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے ہماری بھرپور کوشش ہونی چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے عمل کی بجائے صرف باتوں پر پوری توجہ دیں اور آئندہ سال باتونی قوم کے سروے میں پہلی پوزیشن حاصل کریں۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
ممبئی کی میئر سنہالی امیبکر نے مودی کو ہٹلر قرار دے دیا۔
ممبئی مہاراشٹر کا دل ہے اور اس دل کی دلدار اس وقت ایک دلت میئر ہے۔ بے شک و شبہ وہ اس عہدے پر عوام اور ان کے نمائندوں کی حمایت سے ہی براجمان ہیں مگر دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر پالنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اور یہ کام اس دھان پان سی عورت نے کر دکھایا۔
مہاراشٹر بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی مودی کی جماعت کا بڑا مرکز ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ والے بھی یہاں خاصے سرگرم بلکہ سرتاپا گرم ہیں۔ اب وہ کیسے یہ بات ہضم کر پائیں گے۔ وہ بھی ایک دلت کے منہ سے۔
مودی صاحب البتہ دل ہی دل میں خوش ہوں گے کہ چلو اب ان کا نام بھی عالمی خودسر رہنماﺅں کی فہرست میں جگہ پا گیا کیونکہ کرتوت کے لحاظ سے وہ کسی بھی طور ہٹلر سے کم نہیں ہیں۔
بھارت کے مسلمان ہوں یا عیسائی، سکھ ہوں یا کم ذات کے ہندو کوئی بھی اس ہٹلر جدید اور اس کی پارٹی کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ یہ جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں۔ ہٹلری روایات پر عمل پیرا ہو کر کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ رام راج کے نام پر راون راج کی مثالیں قائم کرنے چلے جاتے ہیں۔ کوئی ان باتوں کو سامنے رکھ کر اگر انہیں ہٹلر نہیں کہے گا تو کیا راجہ رام کہے گا۔ شری رام چندر کے دور میں تو خود ہندو بھی سرخ اور سفید ہر قسم کا گوشت کھاتے۔ رام جی نے کسی کو منع نہیں کیا۔ اب اس ہٹلر جدید کے دور میں کوئی مسلمان گائے باندھنے کے لئے رسی بھی لے جا رہا ہو تو یہ نازی جماعت کے کارکن اس بے چارے کو گاﺅ ہتیا کا مرتکب قرار دے کر ذبح کر ڈالتے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر ہی سنہالی امیبکر نے مودی جی کو ہٹلر جی قرار دیا ہو گا جو سو فی صد درست ہے۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
اقوام متحدہ نے ”ضمیر کے قیدیوں“ کی رہائی کے لیے کام کرنے والی تنظیم کو تسلیم کرنے کی منظوری دے دی۔
چلیں اسی بہانے یہ تنظیم جو اب اس عالمی ادارے میں بھی مستند اور رجسٹرڈ کہلائے گی دنیا بھر میں ”ضمیر کے قیدیوں“ کے لیے زیادہ بہتر طریقے کام کر سکے گی۔
ویسے ضمیر کے قیدیوں میں سرفہرست تو خود اقوام متحدہ بھی ہے جو ابھی تک فلسطین اور کشمیر سمیت درجنوں حل طلب مسئلوں کو اپنی قراردادوں کی منظوری کے باوجود حل نہیں کرا سکی خود اس کے ارکان اس کی باتوں، قراردادوں پر کان نہیں دھرتے۔ یہ تنظیم خود اپنے مرکز میں ”ضمیر کی قیدی“ بنی نظر آتی ہے۔ ضمیر کا قیدی تو وہی ہوتا ہے جو ظلم وجبر کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور اس کے صلے میں اس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ کہیں اسے گمنام قبروں میں چھپا دیا جاتا ہے کہیں انہیں گمنام قید خانوں میں پابند سلال کیا جاتا ہے۔
یہی حالت خود اقوام متحدہ کی بھی ہے جو اپنے ایوانوں میں اس وقت ضمیر کی قیدی بنی ہوئی ہے۔ اور دنیا کے دو بڑے بڑے سلگتے ہوئے مسائل آج تک حل نہیں ہو سکے جن کی وجہ سے اربوں انسانوں کی زندگیاں ایٹمی جنگ کے خطرے سے سہمی رہتی ہیں۔
اب اس تنظیم کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کے حق میں بھی آواز بلند کرے تاکہ اسے اس قدر خودمختار، طاقتور اور باوقار بنایا جائے کہ وہ جہاں بھی ضمیر کے قیدی دیکھے ان کی بزور طاقت مدد کرکے انہیں قیدوبند سے نجات دلوانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔
اب اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ بھی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی قراردادوں کے مطابق فلسطین اور کشمیر جیسے مظلوم ضمیر کے قیدیوں کی دادرسی کرے اور مردہ ضمیر قوموں کے ضمیر جھنجھوڑ کر انہیں بیدار کرے۔ تب کہیں جا کر اقوام متحدہ حقیقی معنوں میں اقوام عالم کی رہبر بنے گی۔ ورنہ مرحومہ ”لیگ آف نیشنز“ کی عبرتناک موت سب کے سامنے ہے۔ وہ بھی اس بے ضمیری کی بھینٹ چڑھی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭