• news
  • image

اوسلو تعلیمی کانفرنس اور ہمارے تعلیمی معاملات

پچھلے دنوں‘ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف اور وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت انجینئر میاں محمد بلیغ الرحمن ایجوکیشن فار ڈویلپمنٹ کانفرنس اوسلو میں جلوہ افروز تھے۔اوسلو کانفرنس ”تعلیم برائے ترقی“کا مقصد ان 58 ملین بچوں کو تعلیمی دھارے اور ترقی کے نیٹ ورک میں لانا ہے جو درس و تدریس سے کوسوں دور رہ جاتے ہیں۔ 7 جولائی 2015ءکو ہونے والے سربراہان مملکت و حکومت اور وزرائے تعلیم نے اعلیٰ سطحی نشست میں شرکت کی۔

ایک طرف بنیادی تعلیم کے حوالے سے اوسلو کانفرنس چل رہی تھی اور میرا رابطہ مسلسل وزیرتعلیم سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں بلیغ الرحمن سے حسن ظن کا تعلق استوار رکھے ہوئے ہوں کہ وہ وفاقی سطح پر کچھ کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ ”میڈیا گری“ کو مجبوری سمجھے بغیر وہ تعلیمی دوستوں‘ ماہرین‘ اعلیٰ حکام‘ اساتذہ‘ سربراہان ادارہ جات اور محکمہ سے ہر وقت رابطہ میں ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ”غیر تعلیمی“ سرگرمیوں کی جان محفل نہیں بنے رہتے۔
حسن اتفاق در حسن اتفاق یہ کہ میں چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر نظام الدین کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور موضوع بحث اوسلو کانفرنس اور انجینئر بلیغ الرحمن سے چند لمحے قبل اوسلو سے ہونے والا رابطہ اور گفت و شنید تھی۔ ڈاکٹر نظام وزیراعلیٰ پنجاب کے تعلیمی ویژن اور بلیغ الرحمن کی تعلیم دوستی کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ اس ملاقات میں پروفیسر ڈاکٹر عاشق حسین ڈوگر بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر نظام پنجاب کے ہائر ایجوکیشن سسٹم میں اصلاحات کے متمنی ہیں اور کوشاں بھی۔ اگر ڈاکٹر نظام وزیراعلیٰ شہبازشریف کے معاملہ میں سمجھنے اور سمجھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ پنجاب کیلئے انقلابی تعلیمی اقدام بھی ہو سکتا ہے‘ لیکن ہمارا مشورہ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن (سندھ کو بھی) یہ ہے کہ وہ یونیورسٹیوں میں کافی حد تک انتظامی امور اور کسی حد تک تعلیمی امور میں مداخلت رکھیں‘ تاہم وظائف‘ فارن سٹڈیز پالیسی‘ ریسرچ اور بین الاقوامی تعلیمی امور اور کوالٹی ایجوکیشن کے معاملات پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دست شفقت تلے رہنے دیں۔ ہائر ایجوکیشن اور قومی ریسرچ کے امور حقیقتاً وفاق کی علامت ہوا کرتے ہیں۔ چلیں آخر یہ مان لیا کہ ” تعلیمی تفویض کار میں صوبائی ایچ ای سی اہم کردار ادا کرکے تعلیم و ترقی کو بہتر کر سکتی ہے۔ میرا ہمدردانہ مگر عاجزانہ مشورہ ڈاکٹر نظام (پنجاب) اور ڈاکٹر عاصم حسین (سندھ) سے یہ ہے کہ یہ لوگ صوبہ بھر کے کالجز پر زیادہ توجہ دیں۔ بے شمار کالجز اب پوسٹ گریجوایٹ کالجز بن چکے ہیں جہاں ایم اے و ایم ایس سی جاری ہیں۔ یہ نظرانداز ہورہے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کی ایچ ای سی اگر کالجوں پر کام کریں اور یونیورسٹیوں کے زیادہ معاملات مرکزی ایچ ای سی پر رہنے دیں تو تعلیمی کمال عمل میں آسکتا ہے۔
دیکھئے اتفاق کہ ”نشستِ نظام“ چل رہی تھی کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کال آگئی کہ ”گجرات تشریف لے آئیے تو خوب گزرے گی“ اگر آپ آتے ہیں تو شب بیداری ہو گی وگرنہ میں واپس اسلام آبادکیلئے رخت سفر باندھتا ہوں۔“ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے جس محبت سے بلایا،ناں ناممکن تھی ۔ تنگی دامانِ وقت بھی درپیش تھی تاہم جیسے تیسے سے افطاری کے موقع پر یونیورسٹی آف گجرات پہنچ گئے۔ یہ تو معلوم تھا کہ ڈاکٹر ضیاالقیوم وی سی جامعہ گجرات بطور میزبان شمع محفل ہوں گے‘ لیکن پہنچنے پر خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (جی سی یو) فیصل آباد کے وی سی ڈاکٹر محمد علی شاہ اور پارلیمانی سیکرٹری دفاع ممبر قومی اسمبلی چودھری جعفراقبال جونیئر بھی وہاں رونق محفل تھے۔ واہ کیسی کہکشاں تھی ‘ تین تین وی سی، پھر تعلیم اور ادب دوست جعفر اقبال بھی۔ کاش جعفر اقبال سے پروفیسر احسن اقبال جیسے تعلیم اور وطن دوست وفاقی وزیر اور بلیغ الرحمن جیسے چشم بینا رکھنے والے استفادہ کرتے۔
اس موقع پر میں نے ڈاکٹر محمد علی شاہ (جی سی یو) فیصل آباد میں تعلیمی و تحقیقی ذوق کی بلندیاں دیکھیں۔ خیر ڈاکٹر شاہد صدیقی سے تو میں آشنا ہوں ہی‘ ازخود میں نے انہیں راتوں رات اوپن یونیورسٹی کی حالت بدلتے دیکھا بھی ہے اور وہ تحقیق کو یونیورسٹی کا اوڑھنا بچھونا بنانے کیلئے سرگرداں بھی ہیں۔ ایک ملاقات میں وفاقی وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے راقم کو بتایا کہ وہ اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور شاہد صدیقی سے بہت توقعات رکھتے ہیں اور مطمئن ہیں۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی کی طرح پروفیسر محمد علی شاہ نے بھی آٹھ نو ماہ کے عرصہ میں جی سی یو فیصل آباد میں ٹھکا ٹھک نہ صرف تعمیری منصوبے مکمل کرائے بلکہ نئے شعبہ جات شروع کرنے کے علاہ ریسرچ کو بھی فوکس کیا۔ ڈاکٹر صدیقی خوش قسمت ہیں کہ ان کے احسن اقبال اور بلیغ الرحمن جیسے درد دل رکھنے والے وزراءسے مسلسل روابط رہے ہیں۔ ایم این اے جعفر اقبال کی تعلیمی بحث میں دلچسپی دیدنی تھی۔ حکومتی نمائندہ ہوتے ہوئے جہاں ان کی موجودگی اہم تھی‘ وہاں انہوں نے صفحہ اول کے ان تعلیمی ماہرین کی موجودگی کو ”تعلیمی و تربیتی نشست“ بھی قرار دیا۔ ڈاکٹر ضیاءالقیوم (گجرات یونیورسٹی) اور ڈاکٹر محمد علی شاہ کی تعلیمی بے تابیاں اور کچھ کرنے کا بھوت سوار دیکھ کرمیں کچھ دیر محفل سے دور نکل گیا اور سوچتا رہا کہ کاش میاں شہبازشریف اور رانا مشہود ان دونوں احباب کو ایک ”انفرادی ملاقات“ کا جلد از جلد موقع فراہم کریں۔ وزیراعلیٰ اور وزیرتعلیم ان دونوں کی یونیورسٹیوں کا دورہ کریں۔ لوہے کو زنگ لگنے سے پہلے اس کی فولادی قوت کو بروئے کار لانا ہی اصل قیادت کا طرہ¿ امتیاز ہوتا ہے (اس بات کو شہبازشریف سے بہتر کون جانتا ہے) ہم جو شب بھر جعفر اقبال کے گجرات شہر میں تعلیمی فکر کیلئے جاگتے رہے‘ انہیں چاہئے کہ وہ اس شب بیداری تعلیم کے کچھ نوٹس بنا کر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے ڈسکس کریں۔ خود بھی جامعہ فیصل آباد اور اوپن یونیورسٹی کا دورہ کریں۔ ہو سکے تو سائنس و ٹیکنالوجی کے پارلیمانی سیکرٹری ایم این اے طلال چودھری کو بھی ساتھ لیں اور کہیںطلال سے کہ صرف میڈیا پر سیخ پا ہونا یا جملے کسنا ہی حکومت و سیاست نہیں‘ سائنسی میدان میں آئیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اوسلو کے عزم کو آگے بڑھانے کیلئے وزیراعظم اپنی قیادت میں سارے وزرائے تعلیم کو متحرک کریں۔ رانا مشہود ‘ نثار کھوڑو‘ عاطف خان (کے پی کے)‘ مشتاق غنی (کے پی کے) سمیت سبھی صوبائی وزرائے تعلیم تحریک برپا کریں۔ مرکزی اور صوبائی چیئرمین حضرات برائے ایچ ای سی ہائر ایجوکیشن کی ریسرچ کیلئے اداروں کے دورے کریں۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں ریسرچ برائے نام ہے۔ جاتے جاتے یہ بھی بتا دیں کہ گجرات کی اس رات میں جہاں تعلیمی فکر کی باتیںتھیں‘ وہاں شاہد صدیقی نے ”حسن اتفاق“ میں شعری حسن انتخاب سے رنگ بھی بھرے رکھا۔ محمد علی شاہ نے شاکر شجاع آبادی کی سرائیکی شاعری اور حسن سے میلہ ہی نہیں‘ ہمیں بھی لوٹ لیا۔
الوادع کہہ جانے والے رمضان میں لیاقت بلوچ کی افطاری کے بعد گجرات کی یہ افطاری ”رفتاری“ اور شب بیداری ذہن و قلب پر نقش رہے گی۔ بقول ڈاکٹر شاہدصدیقی....
”زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ گجرات کی رات“
جی! اگر تینوں وی سی اپنے اپنے عزم پر رہیں!

epaper

ای پیپر-دی نیشن