• news

برسات اور سیلاب سے تباہی، کیا بلدیاتی انتخابات ہو سکیں گے؟

پاکستان بالخصوص سندھ میں سیاسی سطح پر بظاہر سکوت نظر آتا ہے کراچی میں بدامنی کے خاتمے کیلئے ٹارگٹڈ آپریشن کی کارروائیاں جاری ہیں، سیلاب اور برسات کی تباہ کاریوں سے اگست میں مزید نقصانات کا خدشہ ہے ایسے میں کیا بلدیاتی الیکشن ہو سکیں گے؟ جس کے لئے ستمبر کی تاریخ دی گئی ہے لگتا ہے کہ نقصانات اسی نہج پر رہے تو حکومتیں یعنی پنجاب اور سندھ خود سپریم کورٹ سے درخواست کریں گی کہ اس تاریخ میں توسیع کی جائے، دوسری طرف سیاسی تنہائی کا شکار متحدہ قومی موومنٹ، حکومت کے خلاف نئے محاذ کھولنے پرآمادہ طاہر القادری، جوڈیشل کمیشن رپورٹ کے بعد الیکشن کمیشن کے استعفیٰ کا مطالبہ لے کر آنے والے عمران خان اور سندھ میں گورنر راج سے خوفزدہ پیپلزپارٹی سب ہی مسلم لیگ ن کو چیلنج کرنا چاہ رہے ہیں، مناسب وقت کا انتظار ہے کہ سیاست میں ٹائمنگ اہم ہوا کرتی ہے، فی الوقت سیلاب اور بارش نے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں لیکن جیسے ہی موقع ملا سیاستدان فریق مخالف پر دھاوا بول دیں گے، دیہی سندھ کی روایات میں تو پلاند / بدلہ یا انتقام کہا جاتا ہے کہ کبھی پرانا نہیں ہوا کرتا کہتے ہیں کہ تعزیت ’’پلاند‘‘ (Pland) کبھی بھی ممکن ہے حالات ویسے نہیں جیسا کہ پیش کئے جا رہے ہیں یا سامنے ہیں بلکہ طوفان سے قبل کی خاموشی ہے اور سیاسی آتش فشاں کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔
صوبے کو انتظامی اور سیاسی دونوں حوالوں سے موثر بندوبست کی ضرورت ہے، افسران کے تبادلوں اور وزراء کے محکموں کی تبدیلی کو ہر مسئلے کا حل تلاش کرنے والے غلطی پر ہیں، سرکاری محکموں بشمول بلدیات، تعلیم وصحت میں ریکارڈ کی جانچ پڑتال اور افسران کی گرفتاریاں خوف وہراس تو ضرور پیدا کررہی ہیں لیکن بیوروکریسی نے روش تبدیل نہیں کی سرکاری ہسپتالوں، سکولوں میونسپل اداروں، پولیس میں سب کچھ پہلے جیسا ہے آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور کچھ تبدیلی نہیں آئی جب موٹرسائیکل چوری کی ایف آئی آر درج کرنے سے پولیس کا عملہ انکار کرے سرکاری مراکز صحت میں عملہ ہو نہ ادویات اور درس گاہوں میں اساتذہ، فرنیچر سہولتیں کچھ نہ ملے تو گڈ گورننس کادعویٰ کرنے والی حکمراں جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی کوششیں بھی عبث نظر آئی ہیں، بنو امیر، عباس دور اور صفاریوں، بہاریوں اور صفویوں کے دور میں سندھ کا نظام ونسق بسا اوقات دمشق ، بغداد اور مصر وایران سے چلایا جاتا تھا آج کل یہ کام دبئی سے ہو رہا ہے، خوش قسمتی سے سندھ اسمبلی کے 168 رکنی ایوان میں 92 سے زائد نشستیں رکھنے والی پی پی کو ایوان میں منتشر حزب اختلاف کا سامنا ہے، 52رکنی متحدہ کو تحریک انصاف، (ن) لیگ اور فنکشنل لیگ کا تعاون میسر نہیں باقی ماندہ اپوزیشن بھی متحد نہیں ہے، اس طرح راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ دبئی اجلاس میں بھی وزارء کے قلمدان ہی تبدیل ہوئے اضافہ صرف ناصر حسین شاہ کا ہوا جو سکھر سے پی پی کے ایم پی اے ہیں، 2001ء اور 2005ء کے بلدیاتی الیکشن میں وہ ق لیگ کے ضلع ناظم سکھر تھے ان کا گھوٹکی کے مہر گروپ سے تعلق جہاں مہر وہاں ناصر شاہ۔ اب ناصر شاہ اور گھوٹکی کے مہر برادران پی پی کا حصہ ہیں نام تو عمر کوٹ کے سردار علی شاہ اور دادو کے فیاض بٹ کے بھی لئے جا رہے تھے لیکن وہ بوجوہ سندھ کابینہ میں شامل نہ ہو سکے ، کہا جاتا ہے کہ ان کی شمولیت پر آخری لمحات میں اعتراض ہوا کچھ لوگ تو ’’ادی‘‘ یعنی فریال تالپور کا نام لیتے ہیں جبکہ بعض کے خیال میں انہیں بلدیات کی حد تک اہم ذمہ داریاں دینے کی یقین دہانی کرا کر ڈراپ کیا گیا ہے، پی پی پر بیڈ گورننس سمیت بہت سے الزامات ہیں۔ حالیہ سیلاب میں بھی اس کی ناقص کارکردگی سامنے آئی ہے، سیلاب یا برسات ناگہانی آفت نہیں مون سون ہر سال آتا ہے، آبی گزرگاہوں کی صفائی، بچائو بندوں کی مضبوطی اور سیوریج سسٹم کی بہتری سے نقصانات کو کم بلکہ ختم کیا جا سکتا ہے لیکن ہر برس کی طرح ایسا نہ ہو سکا، جس طرح پی پی آئندہ کی منصوبہ بندی کررہی ہے اسی طرح اس کے مخالف صوبے میں حکمت عملی وضع کررہے ہیں بعینہ وفاق میں حکمران مسلم لیگ (ن) کے خلاف سندھ کی حد تک اس کے مخالف منظم ہو رہے ہیں تحریک انصاف کے صوبائی صدر نادر اکمل لغاری کو اپنے آبائی ضلع گھوٹکی میں ایک قبائلی تنازع کا سامنا تھا جو پتافی قبیلے کے سردار احمد علی پتافی کے بھتیجے کے قتل کی واردات تھی اس واقعہ کا تصفیہ بھر چونڈی شریف کے سجادہ نشین پیر عبدالخالق کی کوششوں سے ہو گیا ہے اس طرح قبائل تنازعات کے خاتمے سے گھوٹکی میں آئندہ الیکشن بھی سردار، پیر اور مہر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے لڑیں گے ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ سندھ میں نئے سیاسی اتحاد بننے جا رہے ہیں ایک اتحاد پی پی کے خلاف اس کے مخالفوں کا ہوگا تو دوسرا (ن) لیگ کے خلاف سندھ کی لیڈر شپ کا سندھی قوم پرست ابھی کھل کر سامنے نہیں آ رہے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خود متحد ہو کر میدان میں آئے اگرایسا ہوا تو سیاسی دھمال سے بلدیاتی الیکشن میں خوب گہما گہمی ہوگی لیکن یہ الیکشن ستمبر میں ہوتے دکھائی نہیں دیتے سیاسی میدان کی خاموشی کسی بڑے طوفان کی خبر دیتی ہے، اگست کو تبدیلیوں کا مہینہ قرار دینے والے بضد ہیں کہ اس مہینے میں بہت کچھ ممکن ہے۔

ای پیپر-دی نیشن