• news

کے پی کے میں چھوٹے نالے زیادہ تباہی کا باعث

یوں تو ہر سال ساون کے مہینے میں سیلاب کی صدائیں ہر طرف سے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں بھی اپنی سیاسی دوکان چمکانے کے لئے اور عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے اخباری بیانات کے ساتھ ساتھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن جب ساون کا مہینہ ختم ہو تا ہے۔ اور سیلاب تباہی پھیلاتے ہوئے غریب لوگوں کے گھروں کو تباہ کرتے ہوئے۔ زمینداروں کی فصلوں کو تباہ کرتے ہوئے سمندر برد ہو جاتے ہیں تو یہ سیاسی مداری بھی خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ اور ان غریب متاثرین کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ حکومتیں کچھ مدد کر کے پھر بھی اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ لیکن ان سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لئے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھاتیں جن سے یہ تباہی رک سکے اور جہاں عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ وہاں حکومتوں کے بھی انکی بحالی کے لئے اربوں روپے لگتے ہیں۔ جو ہرسال ساون کے مہینے میں پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ اس نقصان کو روکنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے ہیں جن سے یہ تباہ کاریاں رک سکیں۔ اور پاکستان حکومت متاثرین کی بحالی کے چکروں سے نکل کر پاکستان کے دیگر مسائل کی طرف توجہ دے سکے۔ اس وقت ملک میں توانائی کا بحران ہے جس سے پاکستان انڈسٹری کا پہیہ رکا پڑا ہے۔ وہاں شہریوں کو بھی شدید اذیت کا سامنا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران فضول چیزوں پر وقت ضائع کرتے ہیں لیکن اس طرف توجہ نہیں دیتے جہاں ہر سال اربوں روپے ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کئی ماہ تک متاثرین سیلاب اذیت سے دو چار رہتے ہیں۔ کیا کوئی حکومت اس کا مستقل حل کیوں نہیں نکالتی اس کے پیچھے کیا بات ہے۔ جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے کہ متاثرین کی بحالی کے نام پر خرچ ہونے والے اربوں روپے ہڑپ کرنا ہے۔ صرف اس وجہ سے اس کا مستقل حل نہیں نکالا جا رہاہے۔ اگر اس کا مستقل حل نکل گیا تو یہ اربوں روپے ہڑپ نہیں ہو پائیں گے۔ اس لئے غریب لوگوں کو ان کے بچوں کو انکی فصلوں کو ان کے مویشیوں کو پانی میں بہا کر اپنی تجوریوں میں اربوں روپے کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ نئی گاڑیاں خرید کر نئی کوٹھیاں بنا کر عیاشی سے زندگی گزارتے ہیں۔ اس کرپشن میں صرف حکومتیں ہی شامل نہیں ہوتی ہیں بلکہ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ جو آپس میں مل کر اس بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ صرف اخباری بیانات کی حد تک تنقید کرتے ہیں۔ ہرسال کی طرح اس سال بھی سیلاب نے اسی طرح تباہی پھیلانی شروع کر رکھی ہے۔ جس کے اثرات صوبہ کے پی کے میں بھی موجود ہیں صوبہ کے پی کے کیونکہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اس لئے دریا میں سیلاب آنے کے باعث بہت کم علاقے متاثر ہوتے ہیں۔ صوبہ کے پی کے میں تباہی چھوٹے چھوٹے نالے پھیلا دیتے ہیں۔ جو پہاڑوں سے میدانوں کی طرف آتے ہیں۔ لیکن ایک بڑی معنی خیز بات یہ ہے کہ صوبہ کے پی کے میں ہر سال کوئی ایک نا ایک علاقہ ان نالوں کی نظر ہوتا ہے۔ جو بستیوں کی بستیوںکو ختم کردیتا ہے۔ اگر ہر سال پر لکھا جائے تو یہ بڑا تحویل مضمون بن جائے گا۔ اس لئے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔ 2010ء میںصوبہ کے پی کے میں سوات اور ضلع کوہستان اور نوشہرہ بری طرح متاثر ہوئے۔ اس سال بھی سب سے زیادہ نقصان چھوٹے نالوں نے کوہستان میں پہنچایا جنہوں نے کئی سو کلو میٹر رابطہ سڑکوں کو ختم کیا۔ پھر درمیان کے سالوں میں کوئی ایسا شدید نقصان نہیں ہوا۔ اس سال پھر ضلع چترال اس لپیٹ میں آگیا۔ مختلف پہاڑوں سے نکلنے والے نالوں نے چترال کی بڑی بستی کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ فیکٹریوں لوگوں کے گھروں، کاروباروں سے محروم کردیا۔ جبکہ ان مون سون کی بارشوں نے صوبہ کے پی کے کے دیہاتوں میں بھی کچے گھروں کو تباہ کردیا جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں ایبٹ آباد ضلع کے دیہی علاقوں گلیات سرکل لورہ سرکل سرکل بکوٹ، سرکل بوئی میں درجنوں گھر متاثر ہوئے ہیں۔ جنہیں آسمانی آفات ہی کہہ سکتے ہیں تو شاید ہمارے اعمالوں کی وجہ ہوسکتی ہیں البتہ پنجاب اور سندھ میں آنے والے سیلابی ریلے حکومتوں کی نا اہلی ہیں۔ جو ان کے لئے موثر اقدامات نہیں اٹھاتے۔ جن سے شہریوں کی تباہی ہوتی ہے۔جہاں حکومتوں کی نااہلیاں ہیں وہاں ہمارے اعمالوں کے بھی نتیجے ہیں۔ اس لئے پاکستان قوم اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو اپنی زندگیوں میں شامل کرلیں تاکہ اس طرح کے عذاب سے بچا جاسکے۔ کیونکہ ملک بھر میں جتنے بھی سیلاب آتے ہیں وہ اللہ کے حکم سے ہی آتے ہیں اس لئے اگر ہمیں ان عذابوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے تو اپنے اعمالوں کو ٹھیک کرنا ہوگا تب جاکر ہم ان آزمائشوں سے بچ پائیں گے۔ وہ راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے راستوں کو اپنانا ہے۔ وہی ہماری کامیابی کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری صورت میں ہم ان آزمائشوں کا شکار رہیں گے۔ جو ہمارے گھروں کاروبار کو اجاڑتے رہیں گے۔ اللہ ہمیں قرآن و سنت پر چلنے کی توفیق دے تاکہ ہم ان آزمائشوں سے محفوظ رہ سکیں۔ ایبٹ آباد میں اور ہزارہ بھر میں بارشوں کے باعث ایک درجن سے زیادہ مرد و خواتین مکانوں کی چھتیں گرنے سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ جبکہ ضلع مانسہرہ کی تحصیل ارگی کے سیوریج نالے میں طغیانی کے باعث درجنوں دوکانیں گھر منہدم ہونے سے کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور یہی سلسلہ ہزارہ بھر میں جاری ہے۔

ای پیپر-دی نیشن