ریلیف کیمپس میں متاثرین کیلئے سہولیات کا فقدان
سیلاب کے پانی نے علی پور کے نواحی علاقہ جات سرکی‘ ٹبہ برڑہ‘ محل مسن‘ کوٹلہ غلام شاہ‘ کندائی‘ ملک آرائیں سمیت 22 مواضعات میں تباہی مچا دی جہاں پر پندرہ ہزار ایکڑ میں کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ 2014ء میں وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سیلاب کے موقع پر علی پور میں تشریف لے آئے تھے۔ انہوں نے ان علاقوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کیلئے 50 کروڑ روپے کے فنڈ نئے سپر بند کیلئے اعلان کیا تھا۔ فنڈز جاری ہو گئے سپر بند بنانے کیلئے کام بھی ہوتا رہا۔ کرپشن کی وجہ سے آج تک یہ فلڈ بند مکمل نہ ہو سکا جس سے 2015ء کے سیلاب کے پانی نے ان علاقوں میں پھر تباہی مچا دی اور یہ 22 مواضعات پھر پانی میں ڈوب گئے ہیں حکومت پنجاب کی طرف سے سیلاب زدہ عوام کیلئے خان گڑھ ڈوئمہ کے مقام پرگورنمنٹ بوائز ہائی سکول میں ریلیف کیمپ بنایا گیا ہے۔ یہ کیمپ صرف فوٹو سیشن کیلئے بنایا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں جب نوائے وقت کی ٹیم اس کیمپ میں گئی تو یہ کیمپ بارش کے پانی کی وجہ سے سیلاب کا منظر پیش کر رہے ہیں بلکہ وہاں پر سیلاب زدگان کا ایک فرد بھی موجود نہیں تھا۔ یہ کیمپ خالی پڑے ہوئے تھے صرف ایک موٹر سائیکل ان کیمپوں میں موجود تھا۔ سیلاب زدگان کیلئے محکمہ صحت کی طرف سے بھی مریضوں کیلئے کیمپ لگایا گیا تھا لیکن وہاں نہ ڈاکٹر موجود تھا نہ کوئی مریض ۔یہ بھی صرف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی تصویروں سے سجا ہوا تھا اور کچھ نہیں تھا۔ حکومت کی طرف سے محکمہ لائیو سٹاک کا بھی کیمپ بھی لگایا ہوا تھا وہ بھی ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ جب وہاں پر موجود افسران سے سوال کیا گیا کہ یہاں پر کوئی سیلاب موجودہ نہیں ہے یہ کیمپ کیوں لگائے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہاں پر سیلاب زدگان آنا ہی گوارہ نہیں کرتے وہ کہتے ہیں ہم ایک باعزت گھرانے اور بلوچ قبیلے کے لوگ ہیں حکومت کی طرف سے کوئی اچھے اقدامات نہیں کئے گئے اس لئے وہ یہاں ریلیف کیمپ میں نہیں آتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سیلاب میں ان کے گھروں میں جا کر امداد دے رہے ہیں۔ بستی پنج پیر میں یہاں کے رہائشیوں سے پوچھا گیا حکومت کی طرف سے آپ لوگوں کو امداد مل رہی ہے وہ پھوٹ کر رونا شروع ہوگئے۔ ہم بھوک سے مر رہے ہیں ہمارے بچے بیمار ہیں ہمارے جانور مر رہے ہیں نہ کوئی خوراک‘ ادویات دی جا رہی ہے ، صرف جب ان لوگوں کو ضرورت ہو فوٹو سیشن کیلئے ہمیں بلواتے ہیں وہ بھی امداد کا بہانہ بنا کر یہاں لے جاتے ہیں اور پولیس کے ذریعے ڈنڈے مار کر واپس بھیج دیتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ریلیف کیمپوں میں کچھ نہیں ملتا ہے اس لئے ہم اپنے گھروں سے سے نہیں جاتے۔ سیلاب کے پانی میں جب گھر بہہ جاتے ہیں ان درختوں پر جگہ بنا کر ہم یہاں رہ جاتے ہیں۔ دریائے چناب میں ایک لاکھ چوبیس ہزار کیوسک پانی علی پور کے نواحی علاقوں میں تباہی کے علاوہ چھ معصوم بچوں کو اپنے تیز خونی لہروں کی نظر کر گیا۔ سیلاب میں کوٹلہ غلام شاہ میں تین بچے نماز جمعہ ادا کرنے کیلئے نزدیکی بستی میں جا رہے تھے کہ اچانک پاؤں پھسل کر نیچے سیلاب کے پانی میں ایک بچہ محمد یوسف گر گیا۔ اس کو بچانے کیلئے محمد یونس پانی میں گیا وہ بھی ڈوب گیا ۔ محمد شاہد نے شور مچایا‘ نمازی ان کو بچانے کیلئے آئے تو دو بچے محمد یونس اور محمد یوسف جاں بحق ہو گئے تھے اسی طرح کوثر بی بی عمر 9 سال سیلابی پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئی۔ نادیہ بی بی اپنے گھر میں کھیل رہی اچانک پاؤں کے پھسل جانے سے سیلابی پانی میں ڈوب گئی تھانہ کندائی کے علاقہ ٹبہ برڑہ کے رہائشی جلال الدین میرانی کا تین سالہ بیٹا راجا گھر کے کنارے کھیل رہا تھا اچانک پاؤں پھسل کر سیلابی پانی میں ڈوب گیا چھٹے واقعہ میں آٹھ سالہ جمشید دریائے سندھ کے پانی سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ کی تیز لہروں کی نظر ہو گیا۔ ان کی لاش کو 1122 ریسکیو ٹیم نے نکال لیا۔ سیلاب کی اتنی بڑی تباہی ہونے کے باوجود خادم اعلیٰ کی تصویریں تو ہر جگہ موجود ہیں لیکن وزیراعلیٰ پنجاب ان لوگوں کی دادرسی کیلئے نہیں آئے ہیں۔ علی پور کے 22 مواضعات سیلاب کی نظر ہو گئے ہیں حکومت کی طرف سے چار مواضعات میں جا کر اردگرد فرضی کیمپ لگائے ہیں لیکن 8 مواضعات میں آج تک کوئی نہیں گیا۔ وہ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں صرف کاغذوں میں ان کی امداد جاری ہے۔ سیلاب ہر سال آتا ہے اور کئی قیمتی جانوں کو نگل جاتا ہے اور انکی فصلوں کو تباہ و برباد کرکے چلے جاتا ہے لیکن حکومت کی طرف سے اس سے بچاؤ کیلئے کوئی مستقل پالیسی نہیں بنائی جاتی ہے۔ حکومت بڑے شہروں کی عوام کیلئے اربوں روپے خرچ کرکے میٹرو بس چلا رہی ہے ان غریب عوام جن کے بچے سیلابی پانی میں مر رہے ہیں ان کے لئے بھی سوچنا ہو گا۔ جنوبی پنجاب کے لوگ بھی پاکستان کے شہری ہیں۔