• news

ملا اختر منصور دھیمے مزاج کے مالک مذاکرات کے حامی ہیں: بی بی سی

کابل (نیٹ نیوز/ بی بی سی) طالبان کے نئے سربراہ ملا محمد اختر منصور کو طالبان کی اہم کونسل رہبر شوریٰ کی جانب سے امارات اسلامیہ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ انہیں امیرالمومنین کا خطاب حاصل ہو گا یا نہیں۔ طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کو قریباً 19 سال پہلے افغان صوبے قندھار میں دو ہزار کے قریب علمائے کرام کی جانب سے مشترکہ طور پر امیر المومنین کا خطاب دیا گیا تھا۔ ملا اختر منصور کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے ہے جس کی سرحد بلوچستان سے ملتی ہے۔ ان کی عمر 50 سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ ان کا تعلق افغانستان کے اسحاق زئی قبیلے سے بتایا جاتا ہے۔ وہ افغان جہاد کے دوران خیبر پی کے کے شہر نوشہرہ میں جلوزئی کے مقام پر ایک مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے کے طالب علم بھی رہے ہیں۔ طالبان ذرائع کے مطابق ملا اختر منصور نے سابق سوویت یونین کے خلاف مختصر عرصے تک جہاد میں حصہ لیا اس وقت وہ افغان جہادی پارٹی حزب اسلامی افغانستان (یونس خالص) گروپ سے منسلک تھے وہ سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی سوویت یونین نواز حکومت کے خلاف بھی لڑتے رہے ہیں۔ 90ءکی دہائی کے آخر میں جب افغانستان میں ملا عمر کی سربراہی میں تحریک طالبان کا ظہور ہوا تو ملا اختر محمد مصنور نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ طالبان دور حکومت میں سول ایوی ایشن کے وزیر رہے۔ اکتوبر 2001ءمیں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو دیگر طالبان رہنماﺅں کی طرح ملا اختر منصور بھی نامعلوم مقام پر روپوش ہو گئے اور ایک لمبے عرصے تک غائب رہے۔ لیکن جب طالبان قیادت دوبارہ منظم ہوئی تو وہ منظر عام پر آئے اور اس دوران وہ قندھار صوبے کے لئے طالبان کے شیڈو گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے ایک اہم رہنما اور ملا عمر کے نائب ملا عبیداللہ اخوند جب پاکستان ایک آپریشن کے دوران گرفتار ہوئے تو اس کے بعد ملا عبدالغنی بردار کو ملا عمر کا نائب مقرر کیا گیا۔ اس دوران دو نائب بھی منتخب ہوئے جن میں ایک ملا اختر منصور شامل تھے۔ 2010ءمیں جب ملا عبدالغنی بردار کو پاکستان کے شہر کراچی میں پاکستان اور امریکی فورسز کی ایک مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا گیا تو اس کے بعد ملا اختر منصور کو ملا عمر کا نائب مقرر کیا گیا۔ اس دوران انہیں طالبان کے ”رہبر شوریٰ“ کے قائم مقام سربراہ کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ وہ طالبان کے سربراہ مقرر ہونے تک یہ ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے ہیں۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا اختر منصور کو ابھی صرف امارت اسلامیہ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جبکہ یہ فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے کہ انہیں امیر المومنین کا خطاب دیا جائے گا یا نہیں۔ سینئر افغان صحافی سمیع یوسف زئی کئی بار ملا اختر منصور سے ملاقات کر چکے ہیں۔ ملا اختر منصور دھیمے مزاج کے مالک سمجھے جاتے ہیں اور مذاکرات کے حامی بھی بتائے جاتے ہیں۔ طالبان ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان کے بعض دھڑے ملا اختر منصور کی امارت اسلامیہ کا سربراہ مقرر ہونے سے خوش نہیں اور یہ امکان بھی موجود ہے کہ طالبان تحریک دھڑا بندی کا شکار ہو جائے۔
ملا منصور / تجزیہ

ای پیپر-دی نیشن