آچے سے غزہ تک، چترال سے آواران تک
انجلینا جولی برما پہنچی تو عالمی میڈیا نے اس کی ہیڈ لائینیں جمائیں اور اب ہمارے میڈیا کی سرخیاں بھی جھلملا اٹھی ہیں۔انسانی خدمت کا جذبہ لائق تحسین ہے، انجلی کئی برس پہلے پاکستان بھی آئی تھی، مہاجرین کو دیکھنے کے لئے مگر ا سکی تصویر چودھری شجاعت حسین کے ساتھ چھپی، یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ چودھری شجاعت نے انجلی سے کس زبان میں گفتگو کی۔ وہ جس لب و لہجے میں پنجابی بولتے ہیں ، اس کو بھی سمجھنے کے لئے کسی سقراط بقراط کی عقل درکار ہے ۔
انجلی مہاجرین کے لئے سفیر ہے، غیر مسلم دکھی لوگوں کی خدمت کریں تو انہیںعالمی سطح پر سفیر بنا دیا جاتا ہے اور اگر مسلمان اس کام کا بیڑہ اٹھائیں تو ان کے راستے میں طرح طرح کی مشکلات حائل ہیں، برما کے روہنگیا مسلمانوں تک راشن پہنچانے کے لئے شاہد بھائی نے ویزہ مانگا تو انکار کر دیا گیا مگر سارے راستے تو برمی حکومت کے کنٹرول میںنہیں ہیں، شاہد بھائی نے بنگلہ دیش کا ویزہ لیا اور کاکسز بازار کا دشوار راستہ اختیار کیا، وہ روہنگیا کے کیمپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، یہاں سب بچے یتیم تھے، اس قدر بے آسرا کہ ان کا کوئی نزدیکی رشتے دار تک نہ بچ پایا تھا۔ پہلے پہل ان کا قتل عام برمی فوج نے کیامگر جب دنیا نے نسل کشی کا الزام لگایا تو اب بڑا باریک کام کیا جاتا ہے، برمی فوج ایک حصار بنا لیتی ہے اور مقامی بدھ آبادی قتل عام کرتی ہے، بدھ مذہب کو دنیا میں امن کی علامت سمجھا جاتا ہے مگر اب اسی مذہب کے ماننے والوں نے بد امنی کو شعار بنا لیا ہے، اس میں بدھ مذہب کاکوئی قصور نہیں، اس کی تعلیمات کو فراموش کرنے والوں کا سارا قصور ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو کیمپوںمیں بھی چین میسر نہیں ، وہ کشتیاں پکڑتے ہیںا ور انسانی اسمگلروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں، کسی کسی کا نصیب اچھا ہوتا ہے ورنہ ان سمندروں کی طغیانی ان کے لئے موت کاپیغام ثابت ہوتی ہے، کچھ لوگ تھائی لینڈ پہنچنے میںکامیاب ہوئے، کچھ ملائیشیا اور زیادہ تر انڈونیشیا کے جزیرے آچے میں۔
شاہد بھائی فلاح انسانیت سے و ابستہ ہیں۔یہ کیا جذبہ ان میں کوٹ کر بھراہے جو انہیں غزہ سے لے کر آچے تک اور آواران سے لے کر چترال تک دکھی انسانیت کی فلاح میں مصروف رکھتا ہے، اس جذبے کو سلام، یہ فلاح انسانیت کا جذبہ ہے، ان کی ہیڈ لائینیں نہیں لگتیں، الٹا انہیں شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے مگر وہ مخالفانہ پروپیگنڈے کو خاطر میں نہیں لاتے۔وہ دکھی انسانوں کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں، کسی سے کلمہ سن کر اس کی دستگیری نہیں کرتے، نہ کسی کو کلمہ پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں، کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا عیسائی، وہ ہر ایک کے دل کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔
یحی مجاہد نے بتایا کہ بریفنگ کے لئے آنا تو تھا حافظ عبدالرئوف کو مگر وہ کئی روز سے چترال میں تھے اور ابھی وہیں خدمت میںمصروف رہنا چاہتے تھے۔ ہم نے پہلا سوال ہی یہی پوچھا کہ جب چترال کا زمینی راستہ پاکستان سے کٹ چکا ہے تو آپ کے رضاکار وہاں کیسے پہنچنے میںکامیاب ہو گئے۔ شاہد بھائی نے کہا کہ منزل پر جانے کی دھن سوار ہو تو راستہ بھی مل جاتا ہے، ایک راستہ تو چوٹی سے ہو کر نیچے آتا ہے اور یہ دشوار گزار ہے، دوسرا راستہ افغانستان سے ہو کر آتا ہے ، ہم نے دونوں راستے استعمال کئے اور کسی بھی امدادی ٹیم سے پہلے وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ جو انہوںنے پہل والی بات کی تو میں اس کی تصدیق یوں کرتا ہوں کہ دو ہزار پانچ کے زلزلے میں اسلام آباد کا مارگلہ ٹاور زمین بوس ہو گیا، یہ شہر ملک کا دارالحکومت ہے، یہاں ایوان صدرا ور وزیر اعظم ہائوس بھی ہیںا ور پارلمینٹ کے ایوان بھی، غیر ملکی سفارت خانے بھی اور سیکورٹی اداروں کے ہیڈکوارٹر بھی، اسی شہر میں وہ این جی اوز بھی ہیں جو دنیا کو دکھانے کے لئے چکنی چپڑی رپورٹیں مرتب کرتی ہیں مگر یقین مانئے کہ جس ادارے کی ایمبولینس جائے حادثہ پر سب سے پہلے پہنچی، وہ فلاح انسانیت کی تھی اور اس کی وڈیو میرے پاس آج تک محفوظ ہے، اس پرتاریخ اور وقت کی ڈیجیٹل مہر ثبت ہے۔پھر یہ بھی یاد کریں کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل مشرف نے اپنی تقریر میںتسلیم کیا کہ زلزلے کی تباہ کاریوں کی مکمل رپورٹ ان تک چوبیس گھنٹے بعد پہنچی، اس پر مستذاد یہ کہ مہینے کا پہلا ہفتہ تھا اور فوج چھٹی پر تھی ، ا سلئے فوج کو امدادی سرگرمیوں کے لئے حرکت میں آنے کے لئے دو دن لگ گئے۔اس وقت تک بالا کوٹ اور مظفر آباد کے رستے بند ہو چکے تھے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں، پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گئے تھے مگر یہ سب رکاوٹیںانسانیت کی خدمت سے سرشار کارکنوں کے لئے سد راہ نہ بن سکیں۔ ریکارڈ کی بات ہے کہ کنٹرول لائن پر خستہ مورچوں اور ٹوٹی پھوٹی بیرکوںمیں بھی یہی رضا کار سب سے پہلے ریسکیو کے لئے پہنچے۔ ان لوگوں کو نہ تو تمغہ امتیاز کی خواہش ہوتی ہے ، نہ وہ کسی ہلال پاکستان کے تمغے کالالچ کرتے ہیں، ان کا ماٹو خدمت اور فلاح ہے اور بس!
آواران میں زلزلہ آیا تو ایک سنگین حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا، امدای ٹیم کے لیڈرخود حافظ عبد الرئوف تھے مگر ان سے رابطہ منقطع ہو گیا، سبھی کارکن بڑی تشویش میں مبتلا تھے کہ چوبیس گھنٹے بعد حافظ صاحب ایک طرف سے آتے دکھائی دیئے، خستہ حال، ہاتھوں پر رسیوں کے نشان جیسے قید کاٹ کر آئے ہوں، انہوں نے بتایا کہ بلوچ لبریشن فرنٹ کے دہشت گردوں نے انہیں گرفتار کر لیا تھا اور رسیوں سے باندھ کر درخت سے الٹا لٹکا دیا، وہ ایک ہی سوال کرتے تھے کہ تم پاک فوج کے ساتھی ہو، اس لئے معاف نہیں کریں گے، حافظ صاحب نے کہا کہ ہم تو آپ کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے ا ٓئے ہیںا ور ابھی ہم جس جگہ پر پہنچ چکے ہیں، یہاں دورو نزدیک پاک فوج نظر نہیں آتی۔ ہمیں تو آپ کے مصیبت زدہ لوگوں کی فکر لاحق ہے، ہم نہتے ہیں اور سوائے کھانے پینے اور پہننے کے ہمارے پاس کوئی ہتھیار تک نہیں۔اس پر انہوںنے مجھے رہائی دے دی۔یہ ہیں وہ حالات جن میں فلاح انسانیت کے رضاکاروں کو کام کرنا پڑتا ہے۔
غزہ میں جانا بالکل ناممکن ہے۔ اسرائیل کسی طور پاکستانیوں کو ویزہ دینے کو تیار نہیں لیکن شاہد بھائی بتاتے ہیں کہ وہ مصر جاتے ہیں اور وہاں سے غزہ کے مقامی لوگوں سے رابطہ کر کے امداد اور ادویہ پہنچانے میںکامیاب ہو جاتے ہیں۔
آچے کاجزیرہ انڈونیشیا کا حصہ ہے ، وہاں روہنگیا مسلمانوں کا کیمپ ہے، انڈونیشیا کی کرنسی کا عالم یہ ہے کہ چند ہزار ڈالر تبدیل کروائیں تو مقامی نوٹوں کی گٹھلیاں اٹھانی پڑتی ہیں، اس تردد سے بچنے کے لئے ہم گھی، چاول اور دوسرا راشن کراچی سے لے جاتے ہیں ، کراچی میں امدای فنڈ اکٹھا کرنے کے کیمپ لگے ہوئے ہیں ،ایک روز کسی کرنل صاحب کا فون آیا کہ ہم نے سب جماعتوں کے چندہ کیمپ ختم کروادیئے ہیں ، آپ بھی اسے ا ٹھا لیں، انہوںنے کہا کہ مجھے ملاقات کا موقع دیں تاکہ اپنی بات آپ تک پہنچا سکوں۔ کرنل صاحب نے بلا لیا اور میںنے انہیں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار سے آگاہ کیا۔ کرنل کا دل پسیج گیا اور پوچھنے لگا کہ آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں، انہوں نے کہا کہ اسی ہزار میں انڈونیشیا کا ٹکٹ ملتا ہے، یہ لے دیں اور انہوں نے جھٹ چیک کاٹ دیا۔
اس سے پہلے کہ شاہد بھائی شرکائے بریفنگ کو کسی امتحان میں ڈالتے، مغرب کی اذان ہو گئی، وہ تیزی سے مسجد کی طرف چل دیئے، اور ہم نے گھر کی راہ لی مگر ان کے جذبے نے ا سقدر متاثر کیا ہے کہ ا ب کہیں ملیں گے تو جو کچھ جیب میںہو گا، انہیں تھما دوں گا، کیاا ٓپ بھی ایسا ہی کریں گے، آچے سے لے کر غزہ تک اور چترال سے لے کر آواران تک بنی نوع انسان آپ کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ انہیں صرف انجلینا جولی کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔