ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کل تک موخر‘ تحریک انصاف کا بائیکاٹ: نوازشریف دوغلی پالیسی نہ اپنائیں چیلنج کرتا ہوں استعفے قبول کریں: عمران
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی/ آن لائن/ بی بی سی/ اے پی پی) قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی ایم کیوایم اور جے یو آئی (ف) کا تحاریک کے معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی۔ بعد ازاں تحریک انصاف کے ارکان نے ایوان کا بائیکاٹ کردیا جبکہ مولانا فضل الرحمان نے مشاورت کیلئے دو دن مانگ لئے اور سپیکر قومی اسمبلی نے قراردادوں پر رائے شماری کا مطالبہ کل تک کیلئے موخر کردیا ہے۔ ایم کیو ایم کی تحریک پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا تمام سیاسی جماعتیں مل جل کر جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کام کریں۔ مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم سبھی تحریک انصاف کو اس پارلیمنٹ کا حصہ رہنے دیں ہم پہلے ہی دہشت گردی کا شکار ہیں اور ہم نہیں چاہتے جمہوریت ڈی ریل ہو۔ بی بی سی کے مطابق تحریک انصاف کا کہنا ہے جب تک اْن کو ڈی سیٹ کرنے سے متعلق قراردادوں پر فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ ایوان میں نہیں آئیں گے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے اس معاملے پر پارلیمانی لیڈروں کو اپنے چیمبر میں طلب کر لیا ہے جس میں پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا اْنھوں نے پہلے ہی کہا تھا جمعیت علمائے اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے اْنھیں ڈی سیٹ کرنے سے متعلق ایوان میں جمع کرائی گئی قراردادوں پر رائے شماری کی جائے۔ وہ عدالتی کمشن کی تشکیل کے بارے میں حکومت سے کئے ایک معاہدے کے تحت قومی اسمبلی میں واپس آئے ہیں اور اْن کی جماعت پارلیمان میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ بعد ازاں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ان کی جماعت ’معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنائے گی، پی ٹی آئی کے ارکان منتخب ہو کے آئے ہیں۔‘ قراردادوں پر کوئی نتیجہ آنے کے بعد ان کی جماعت یہ فیصلہ کرے گی انھوں نے اپنا کردار پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر ادا کرنا ہے یا عوام میں جانا ہے۔ اس سے پہلے جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا اْنھیں قرارداد واپس لینے کے لئے اپنی جماعت سے مزید مشاورت کے لئے وقت چاہئے۔ اْنھوں نے کہا وزیر اعظم کے ساتھ اْن کی حالیہ ملاقات میں مسئلہ کشمیر اور خطے کے دیگر امور پر بات ہوئی تھی جبکہ قرارداد واپس لینے کے بارے میں رسمی بات ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیر کے روز ایوان میں کہا تھا جے یو آئی اپنی قراداد واپس لے لے گی لیکن اس بارے میں اْن سے پہلے کوئی بات چیت نہیں کی گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کا معاملہ سیاسی نہیں بلکہ آئینی ہے۔ چونکہ یہ آئینی معاملہ ہے اس لئے اس قرارداد کو واپس لینے کے لئے آئینی ترمیم ایوان میں پیش کی جائے۔ پارلیمنمٹ اور آئین کو خواہشات کے مطابق نہیں چلایا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا اْن کی جماعت کو اس قرارداد پر مشاورت کے لیے مزید وقت درکار ہے لہٰذا اس قراردار پر رائے شماری تین روز کے لیے ملتوی کر دی جائے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی نے کہا پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کو اپنے اس رویے پر معافی مانگنی چاہیے جو اْنھوں نے دھرنے کے دوران ارکان پارلیمنٹ سے متعلق اپنایا تھا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے سپیکر چیمبر میں سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں جمعت علمائے اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ کو قرارداد واپس لینے کی درخواست کی گئی تھی تاہم اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اے پی پی کے مطابق قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا جب بھی جمہوریت کو کوئی چیلنج ہوا وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے کہا وہ جمہوریت فرینڈلی ہیں۔ قبل ازیں اعجاز جھاکھرانی نے کہا تحریک انصاف کے ارکان کی رکنیت کے حوالے سے تحاریک واپس لی جائیں، ہم نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں، عدالتی کمشن کا فیصلہ آ گیا ہے، اتفاق رائے سے طے پایا تھا فیصلہ حکومت کے خلاف آیا تو حکومت چلی جائے گی، حق میں آیا تو پی ٹی آئی ایوان میں آ جائے گی، جمہوریت کا سفر جاری رہا تو معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور نے کہا پی ٹی آئی ارکان کے ایوان میں واپس آنے کا مطلب یہ ہے انہوں نے استعفیٰ واپس لے لیا۔ خواہش ہمیشہ آئین اور قانون کے مطابق ہونی چاہئے، یہ سیاسی فیصلہ ہے، بہتر ہے دو تین دن مزید دیدیئے جائیں، تقسیم ایک منٹ ہو جائے گی مگر بہتر ہے افہام و تفہیم سے فیصلہ کیا جائے، ہم نے مل کر اسمبلی کو چلانا ہے، ملکی معیشت و ترقی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہم سب کو مل کر چلنا ہے۔ آزاد رکن قومی اسمبلی جمشید احمد دستی نے کہا عدالتی کمشن نے وزیراعظم کو الزامات سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحاریک واپس لیں۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا پی ٹی آئی کے ارکان کی رکنیت ختم کرنے کے لئے کوئی کھیل نہیں کھیلا گیا، جلتی پر تیل نہیں ڈالنا چاہتے، دل و جان سے چاہتے ہیں پی ٹی آئی ارکان اس ایوان میں بیٹھیں، ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کچھ عرصے قبل سیاست میں ایک دوسرے کے دل زخمی ہوئے ہیں، ہم ایم کیو ایم کے پاس گئے۔ انہوں نے ہماری بات سنی ہے، مولانا فضل الرحمن سے سینیٹر پرویز رشید کی بات ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا پی ٹی آئی ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی تحریک کی مخالفت کریں گے۔ پی ٹی آئی ارکان کے سر پر تلوار لٹکتی نہیں رہنی چاہئے۔ تحریک کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد نے کہا پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کے معاملے کو زیادہ اچھالنے کی بجائے ملک کے حقیقی مسائل حل کرنے کے لئے صلح کا ماحول بنایا جائے۔
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ میں اپنے ارکان قومی اسمبلی سے کہتا ہوں کہ وہ رکنیت ختم ہونے دیں ہمیں خیرات میں سیٹیں نہیں چاہئیں میں تو خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کیلئے تیار بیٹھا ہوں پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر جیتیں گے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے بعد پارٹی کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے لیکن اس سے قبل پارٹی کیلئے نئی رکنیت سازی مہم شروع کی جائے گی۔ پارٹی کے الیکشن آفس کے دورے اور چیف الیکشن کمشنر تسنیم عارف نورانی سے ملاقات کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا پی ٹی آئی اس وقت عبوری آئین پر چل رہی ہے ہمارا نیا آئین بھی بنے گا جس میں طے کریں گے کہ پارٹی میں صدر کا عہدہ ہونا چاہئے یا نہیں اس وقت میں چیئرمین کی حیثیت سے حاصل اختیارات کے تحت خود پارٹی چلا رہا ہوں۔ میں مانتا ہوں پہلے انٹرا پارٹی الیکشن سے وہ تبدیلی نہیں لاسکا جس کا سوچا تھا۔ چونکہ پہلے انٹرا پارٹی الیکشن میں ہم نتائج نہیں دکھا سکے لیکن اب ہم غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ میری جماعت جمہوری پارٹی ہے اس میں ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن جو ارکان میڈیا پر آکر پارٹی پر تنقید کرتے ہیں ان کی رکنیت ختم کردی جائے گی کسی رکن کے پاس برملا تنقید کا اختیار نہیں۔ میں اپنی پارٹی میں واحد بااختیار ہوں کوئی تحریک انصاف پر کیسے قبضہ کر سکتا ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق عمران خان نے کہا نواز شریف دوغلی پالیسی اختیار نہ کریں۔ پارٹی سے قومی اسمبلی نہ جانے کی سفارش کرونگا۔ این این آئی کے مطابق انہوں نے کہا کسی کی خیرات پر اسمبلی میں نہیں آئے عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں، حکومت کو چیلنج کرتا ہوں ہمارے استعفے قبول کرے ٗہمیں اسمبلی میں جانے کی ضرورت نہیں، الیکشن کمپین کیلئے تیار بیٹھے ہیں، پارٹی کے اندر کوئی قبضہ گروپ نہیں، میڈیا کے سامنے پارٹی کی پگڑی اچھالنے کی اجازت نہیں دینگے، پارٹی کے خلاف میڈیا کے سامنے بات کر نے والے کی رکنیت ختم کرینگے، جنرل ضیاء کی گود میں پل کر لیڈر نہیں بنا، اپنے پائوں پر کھڑا ہوکر پارٹی سربراہ بنا، مجھ پر کوئی قبضہ نہیں کرسکتا ٗ پارٹی الیکشن لڑ کر کوئی شخص عہدہ حاصل کرسکتا ہے، مولانا فضل الرحمن کے ضمیر کی قیمت ڈیزل کا پرمٹ اورایک وزارت ہے۔ الطاف حسین کے بیان کے بعد ایم کیو ایم کو اسمبلی میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کو اسمبلی سے نکالنے کے مطالبہ پر شرم آنی چاہئے، الیکشن کمیشن کے ارکان ڈھیٹ بن کر بیٹھے ہیں، خط کے جواب کا انتظار ہے، استعفے نہ دیئے تو سڑکو ں پر آئیں گے۔ عمران خان نے کہا مسلم لیگ (ن) دوغلی پالیسی اختیار نہ کرے اسحاق ڈار کے کہنے پر ہم اسمبلی میں واپس گئے مسلم لیگ (ن)کے ایک درباری نے میرے خلاف زبان استعمال کی وزیراعظم نواز شریف بھی بیٹھے ہوئے تھے، یہ دوغلاپن نہیں تو اور کیا ہے؟ ایک طرف آپ اسمبلی میں آنے کی دعوت دیتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے خلاف زبان ا ستعمال کرتے ہو۔ انہوں نے کہا آپ کی کوئی تہذیب اور کوئی کردار ہے کہ آپ دوغلی پالیسی اختیار نہ کریں۔ انہوں نے کہا فضل الرحمن حکومت کا اتحادی ہے وہ ایک منسٹری کی مار ہے فضل الرحمان کی یہ جرات ہے کہ وہ آپ کی بات نہ مانے۔