• news

جنوبی پنجاب پھر سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں

راو شمیم اصغر،ملتان

وطن عزیز ایک مرتبہ پھر سیلاب کی زد میں ہے یہ پہلا موقع نہیں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ 2010 ءکے بعد سے خاص طور پر سیلابوں کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 2010 ءمیں سیلاب نے جنوبی پنجاب اور سندھ میں جو تباہی مچائی تھی وہ آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی تھی۔ اس وقت بے گھر افراد کی آباد کاری کیلئے جو منصوبے شروع ہوئے تھے ان میں سے چند ابھی بھی زیر تکمیل ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر سیلابوں پر قابو پانے کیلئے ابھی تک کوئی ٹھوس منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی۔ اس میں ہمارے کمزور اور ناتواں محکمہ موسمیات کا بھی قصور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے حکمرانوں کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ نہ کیا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس ان سے بریفنگ کیلئے وقت ہی نہ نکلا ہو۔ جو بھی صورت رہی ہو یہ بات طے ہے کہ اب اس خطے میں موسمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ہر سال آنے والے سیلاب اور بے وقت بارشیں ہمیں بتا رہی ہیں کہ مستقبل کا پاکستان موسمی اعتبار سے مختلف ہو گا۔ ماہرین بھی اسی جانب اشارے کررہے ہیں۔ ابھی تقریباً دس سال پہلے ہر جانب شور تھا کہ زیر زمین پانی کی سطح کافی حد تک گر چکی ہے اور مستقبل میں پاکستان کے بنجر بن جانے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ پھر بھارت نے ڈیم بنا کر ہمارے حصے کے پانی کو اپنی ضروریات کیلئے محفوظ کر لیا تو اس پر بھی بڑا شور ہوا تھا بلکہ اس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ لیکن قدرت ہم پر مہربان ہوئی۔ زیر زمین پانی کی سطح گر جانے کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ اور بھارت نے ہمارا پانی روک کر جس سنگدلی کا اظہار کیا تھا اﷲ نے ہمیں اس سے کہیں زیادہ پانی سے نواز دیا۔ یہ ہماری نالائقی ہے کہ ہم اس پانی کو محفوظ نہیں کر سکے اور یہ پانی ہماری تباہی و بربادی کا سبب بن رہا ہے۔ 

سیلابی پانی کے نقصانات دو طرح کے ہیں۔ ایک نچلے درجے کا سیلاب ہو تو دریا اپنی حدود سے نکل کر بیٹ کے علاقے میں تباہی پھیلاتے ہیں بیٹ کے علاقوں کو سندھ میں کچے کے علاقے کہا جاتا ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں انہیں بیٹ کے علاقے کہا جاتا ہے۔ جب دریا¶ں میں پانی نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے تو وہ اپنے معمول کے راستوں پر ہوتے ہیں اور اس وقت ان بیٹ کے رہائشی ان علاقوں میں فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ اونچی جگہوں اور ٹیلوں پر وہ اپنی رہائش گاہیں بنا لیتے ہیں۔ بیٹ میں پانی اچانک آجائے تو ان علاقوں میں بڑی تباہی ہوتی ہے۔ فصلیں تو برباد ہوتی ہی ہیں ان علاقوں کے مکینوں اور جانوروں کو نکلنے کاموقع بھی نہیں ملتا اور زندگی بیٹ کے علاقوں میں چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بٹ کر رہ جاتی ہے۔ ان کے پاس کھانے پینے کے سامان کا ذخیرہ نہ ہو تو بڑے خوفناک حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ پھر پاک فوج اور حکومتی اداروں کے علاوہ سماجی تنظیمیں ان کی مدد کو پہنچتی ہیں لیکن یہ سب کچھ خشکی کے قریب علاقوں تک محدود رہتا ہے۔ دور دراز کے لوگ بڑی کسمپرسی میں وقت گزارتے ہیں۔ بیٹ کے علاقوں کے رہائشی صدیوں سے اس قسم کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ اپنا گھر بار مال مویشی چھوڑ کر جانا پسند نہیں کرتے۔ انتظامیہ کے مجبور کرنے پر بھی وہ اس وقت تک محفوظ مقامات پر نہیں جاتے جب تک حالات سنگین نہ ہو جائیں۔ ان کی زندگیوں میں ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ وہ اب سیلاب کے متاثرین بن کر حکومت سے امداد اینٹھنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ دوسرے متاثرین وہ ہیں جو انسانی آبادیوں کو سیلابوں سے بچانے کیلئے بنے ہوئے بندوں کے پار رہتے ہیں۔ سیلابی پانی کی شدت جب ان بندوں کو توڑ دیتی ہے یا اس میں شگاف پڑ جائے تو پھر جوتباہی پھیلتی ہے اس کا احاطہ الفاظ میں کرنا ممکن نہیں۔ بیٹ کے علاقوں کے رہائشی افراد کو معلوم ہوتا ہے کہ سیلابی پانی آ سکتا ہے اس کے لئے وہ کسی حد تک تیار بھی رہتے ہیں لیکن جب کہیں سے بند ٹوٹتا ہے تو اس کے قریبی علاقوں کے رہائشی افراد کو اچانک سیلاب کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔ ان بندوں کی حفاظت کیلئے پورا ایک محکمہ ہے جس میں ہزاروں اہلکار ہیں۔ حکومتیں بندوں کی حفاظت کیلئے کافی رقم بھی ہر سال جاری کرتی ہے لیکن یہ اہلکار اور افسران سب اچھا کی رپورٹوں اور جعلی کارروائیوں کے ذریعے ساری رقم خوردبرد کر لیتے ہیں۔ اس خطے میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ کسی بند کے قریب رہائشی آبادی کو ڈبونے کیلئے ایک چوہا کافی ہوتا ہے۔ چوہے ان بندوں میں سوراخ کر کے اپنے بل بناتے ہیں اور سیلابی پانی جب ان بندوں سے ٹکراتا ہے چوہوں کے بل گہرائی تک ہوں تو پھر پانی ان سوراخوں سے دوسری طرف نکل کر بند میں شگاف کا باعث بن جاتا ہے۔ بندوں کی حفاظت پر مامور عملے کی ڈیوٹی ہی یہی ہے کہ جہاں کہیں سے بند کمزور نظر آئے اسکی مرمت کی جائے۔ مرمت کے نام پر کروڑوں روپے ہضم کر جانے والے لوگوں کو بھی بند میں شگاف کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے۔ امسال جکھڑ امام شاہ کے بند میں شگاف پڑنے سے بڑی تباہی ہوئی ۔ سینکڑوں بستیوں کو پانی نے تباہ کر دیا۔ بارشوں نے بھی بھرپور رنگ دکھایا۔
ضلع رحیم یار خان کی ایک یونین کونسل فیروز ہ میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ گھروں میں کئی روز تک پانی کھڑا رہا۔ سیلابوں سے جہاں سڑکیں تباہ ہوتی ہیں وہاں بارشوں سے فصلیں خاص طور پر کپاس کی فصل شدید متاثر ہوتی ہے۔ کپاس کے کھیت میں 48 گھنٹے تک پانی کھڑا رہے تو وہ ختم ہو جاتی ہے۔ بہت سے علاقوں میں پانی کھڑا ہو گیا اور فصلیں تباہ ہو گئیں۔ پھر سیلابی پانی یا بارشوں کا پانی اترتا ہے تو بیماریاں سر اٹھانا شروع کر دیتی ہیں۔ جنوبی پنجاب کی کثیر آبادی ان دنوں اسی مشکل سے دوچار ہے۔ حکومت کو دھرنوں اور پھر مابعد کے اثرات سے فرصت ملے‘ تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کا مرحلہ طے ہو جائے ‘قوم کو درپیش امن و امان کے چیلنجوں اور بجلی کے بحران کا سامنا ہو تو حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ اپنے لئے نئے مسائل پیدا نہ کرے۔ تاجروں کے ساتھ محاذ آرائی ایک ایسے وقت میں ہے جب قوم کو سیلاب اور بارشوں کے نقصانات کا سامنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موسموں کے تغیر و تبدل پر ماہرین کی ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ مستقبل میں ہمیں کن چیلنجوں کا سامنا ہو گا۔ اس رپورٹ کو مدنظر رکھ کر سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ کالا باغ ڈیم کے مخالفین کو سیلاب کی تباہ کاریاں دکھائی جائیں اور انہیں احساس دلایا جائے کہ کالا باغ ڈیم کیوںناگزیر ہے۔ کوہ سلیمان کے ساتھ ساتھ درجنوں مقامات پر پانی کو محفوظ کرنے کیلئے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکمران اپنے وسائل سے سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے کھربوں روپے مالیت کے منصوبے بنا کر مکمل نہیں کر سکتی لیکن سیلاب کے متاثرین کیلئے ہر سال کشکول کو لیکر دنیا میں جانے سے بہتر ہے کہ وطن عزیز کو سیلابوں سے محفوظ کرنے کیلئے دنیا سے مدد طلب کی جائے۔ پنجاب حکومت نے رمضان بازاروں کو کامیاب بنانے میں جو توانائیاں خرچ کی تھیں اس سے آدھی رقم بھی بندوں کو محفوظ بنانے پر خرچ کی جائے تو تباہی سے بچا¶ کی صورت نکل سکتی ہے۔ ہمیں ترک خاتون اول کا سیلاب کے متاثرین کی امداد کیلئے گلے سے اتارے ہوئے ہار کو اپنے گلے کی زینت بنانے اور سیلاب کو اپنی سیاست چمکانے کیلئے استعمال کرنے کی بجائے طویل المدت منصوبوں پر توجہ دینا چاہئے ورنہ ہم ہر سال اسی طرح کے حالات سے دوچار ہوتے رہیں گے۔
o

ای پیپر-دی نیشن