الطاف حسین کا طر ز سیاست
جمہوریت بلاشبہ ایک بہترین نظام حکومت ہے جس میں عوام کی رائے میں آخری فیصلہ ہوتاہے جو حق حکمرانی کاتعین کرتاہے عوامی رائے کے نتیجے میں چلنے والا اقتدار دراصل ایک امانت ہوتاہے جس میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنا حکمرانوں پر فرض ہوتاہے آج دنیا کے تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک اور معاشروں میں یہی طرز حکومت رائج ہے سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کا ایک لازمی اور اہم ترین حصہ ہوتی ہیں ہمارے ہاں جیسے جمہوریت آج تک پنپ نہیں سکی اسی طرح سیاسی جماعتیں بھی جمہوریت کے اصل تصور سے مجموعی طور پر عاری نظر آتی ہیں۔ یہاں سیاسی جماعتوں کے اندر بھی مجموعی طور پر جمہوریت کی بجائے آمریت نظر آتی ہے اور شخصیت پسندی پر زیادہ زور نظر آتاہے کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم ترین شہر ہے جسے منی پاکستان بھی کہاجاتاہے یہاں پاکستان کے تقریباًہر خطے کے لوگ آباد ہیں یہ شہر ہمارا ہے یہاں کی سیاست بھی لسانی،گروہی اور نسلی بنیادوں پر بٹی ہوئی نظرآتی ہے۔متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) یہاں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے اور گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ہونے والے تقریباً تمام انتخابات میں اسی جماعت نے واضح اکثریت حاصل کی ہے یہ جماعت ویسے توہرطبقہ فکر کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے مگر مجموعی طور پر اسے اردو بولنے والوں کی جماعت کہاجاتاہے جنہیں مہاجر بھی کہاجاتاہے اس جماعت کے قائد وبانی الطاف حسین کراچی کی مجموعی سیاست کو بھی کنٹرول کرتے ہیں الطاف حسین گزشتہ 23سال سے لندن میں بیٹھ کر اپنی جماعت کو چلارہے ہیں اور ایم کیو ایم کے بلاشرکت قائد بھی ہیں الطاف حسین ایک منفرد سوچ کے مالک سیاست دان ہیں انہوں نے خود کبھی کسی انتخاب میں حصہ نہیں لیا مگر بادشاہ گری کا کردار ہمیشہ ادا کیاہے ان کی سوچ اور طرز عمل غیرمستقل مزاجی کی عکاس رہی ہے وہ حالات اور ضرورت کے مطابق اپنے بیان اور حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں انہوں نے ایک فوجی سوچ کا دعویٰ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کا نام مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ تو رکھ لیامگر سیاست کا محور اور سوچ لسانی اور نسلی بنیاد پر ہی مرکوز رکھی۔ گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ کے دوران بننے والی تقریباً ہر حکومت کا وہ حصہ رہے ہیں اور نمبر گیم میں فیصلہ کن حیثیت رکھنے کی وجہ سے اپنی ہر بات اور مطالبہ منواتے رہے، جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں وہ ہر دم فوج کے گیت گاتے نظر آتے تھے اور اقتدار کی ایوانوں کی زینت ہے اس دوران ان کی جماعت نے ہر سطح پر بھرپور فائدہ اٹھایا اور سندھ کے شہری علاقوں کی حد تک سیاہ وسفید کی مالک رہی۔ اپنی پسندکی وزارتیں حاصل کیں اور اقتدار کے خوب مزے لوٹے۔ یہ سلسلہ بعدازاں پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں بھی جاری رہا آج حالات یکسر بدل چکے ہیں وفاقی سطح پر حکمران جماعت کو ان کے ووٹوں کی ضرورت نہیں رہی، کراچی میں عرصہ دراز سے جاری لاقانونیت اور قتل وغارت گری کو ختم کرنے کیلئے رینجرز کی سربراہی میں بھرپور آپریشن جاری ہے جس کی کامیابی اور منطقی انجام کیلئے وفاقی حکومت اور فوج میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
برطانیہ میں منی لانڈرنگ اور عمران فاروق قتل کیس کی وجہ سے الطاف حسین اور ان کے چند قریبی ساتھیوں کے خلاف تحقیقاتی بھی آخری مراحل میں ہیں۔ کراچی میں پکڑے جانے والے کئی اہم مجرموں کا بھی ایم کیو ایم سے تعلق واضح ہوچکا ہے ان حالات میں الطاف حسین ذہنی اضطراب، بے چینی اور خوف کا شکار ہیں اور آئے روز اپنے بیانات اور خطابات سے ملکی اداروں بالخصوص پاک فوج کے خلاف نفرت اور شرانگیزی پھیلا رہے ہیں وہی فوج جس کے وہ گیت گاتے تھے اس کے حق میں ریلیاں نکالتے تھے حتیٰ کہ اسے اقتدار پر قبضہ کرنے کی دعوتیں بھی دیتے تھے وہ بقول ان کے آج ان کی سب سے بڑی دشمن ہے انہوں نے نفرت اور مفاد پرستی کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے چند روز قبل ہمارے ازلی اور ابدی دشمن ہندوستان کو بھی کراچی میں مداخلت کی دعوت دے ڈالی ہے بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی را سے ان کے تعلقات کی تو اب ویسے ہی تصدیق ہوچکی ہے یہ سب سیاست نہیں بلکہ ہمارے بیمار ذہنیت کی عکاس ہے کوئی محبت وطن پاکستان کو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ کراچی میں بسنے والے دو کروڑ سے زیادہ محب وطن پاکستانیوں کی سوچ کی عکاسی بھی نہیں اس طرز عمل سے یقیناً وہ لوگ بھی جو کہ ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں پریشانی کا شکار ہیں کراچی کے لوگ نہ صرف یہ کہ محب وطن ہیں بلکہ یہ ان لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپناگھر بار چھوڑ کر ہجرت کی اور یہاں آکر آباد ہوئے کراچی کے عوام نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہمیشہ دائیں بازوں کی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں آج پاک فوج وطن عزیز کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پاک کرنے کیلئے لازوال قربانیاں دے رہی ہے ایسے میں فوج کے خلاف نفرت پھیلانا ایک ناقابل تلافی جرم ہے۔ پوری قوم فوج کی پشت پر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہے تاکہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو ایک خوشحال،مستحکم اور محفوظ پاکستان دیاجاسکے۔ اس ساری صورتحال میں الطاف حسین کا طرز عمل اور نفرت انگیزی نہ صرف ایک لمحہ فکریہ ہے بلکہ فیصلہ کن اقدامات کی متقاضی بھی اگر انہیں اپنے ووٹرز اور حامیوں کا اتنا درد ہے تو وہ دیار غیر کو چھوڑ کر وطن واپس آئیں اور اپنی جماعت کی قیادت کریں ان پر جو بھی الزامات ہیں عدالتوں میں ان کا سامنا کریں اور اگر وہ بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو قانون کے سامنے ایسا ثابت کرکے سب کے سامنے سرخرو ہوں۔ ہمارا وطن ایک مشکل وقت سے گزر رہاہے آج ہمیں اتحاد ویگانگت کی اشد ضرورت ہے ایسے میں نفرت اور شرانگیزی پھیلانا اور اپنی فوج کو نشانہ بنانا دراصل دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے جس کی محب وطن پاکستانی اجازت نہیں دے سکتے۔