”صدر“ زرداری ہر پاکستانی کو ہرجانے کا نوٹس بھجوائیں
حضرت مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے لوگوں کو ڈی سیٹ کرنے کے لئے مضحکہ خیز موقف اختیار کیا۔ آپ کی کل سیٹیں چار پانچ ہیں اور وہ اتنے مطمئن تھے کہ ن لیگ کے ووٹ ملانے کے بعد کوئی شور شرابہ ہو جائے گا مگر جب عمران خان نے پہلے ہی اسمبلی میں نہ جانے کا فیصلہ کر لیا اور کہا کہ میں اب اسمبلی کے باہر کردار ادا کروں گا اور یہ کردار دھرنے سے بڑا ہو گا نواز شریف تو عمران کو ڈرانا چاہتے تھے اور مولانا کو آگے کر دیا تھا۔ مگر مولانا تقریر کے ماسٹر ہیں بلکہ ہیڈ ماسٹر ہیں۔ ان کا ایک جملہ پوری قومی اسمبلی کو قہقہہ بار کر گیا۔ ”عمران خان خیرات بھی بدمعاشی سے مانگتے ہیں“ تو کوئی ان سے پوچھے کہ آپ اس بدمعاشی سے ڈر کیوں گئے ہیں۔ آپ نے مخالفانہ قرارداد واپس لے لی ہے۔ کیا اس کے لئے عمران خان نے ان کی منت سماجت کی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ڈراﺅ ڈراﺅ۔ کوئی نہ ڈرے تو خود ڈر جاﺅ۔ یہ بھی بدمعاشی کی ایک قسم ہے اور مولانا وکھری ٹائپ کے سیاسی بدمعاش ہیں۔ یہ ہنر انہوں نے نواز شریف اور ”صدر“ زرداری سے سیکھا ہے۔
”صدر“ زرداری دبئی سے لندن چلے گئے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ وہ لندن سے پارٹی چلائیں گے اور بلاول کو رحمن ملک اور شیری رحمان کے ذریعے قابو میں رکھیں گے۔ اگر الطاف حسین یہ معرکہ آرائی کر سکتا ہے تو ”صدر“ زرداری کیوں نہیں کر سکتے۔ مگر ابھی الطاف حسین بننا ”صدر“ زرداری کے لئے ممکن نہیں ہے۔ رحمن ملک کی خدمات اس ضمن میں بھی ان کے کام نہیں آ سکتیں۔ الطاف حسین نے برطانیہ کو شیشے میں اتارا ہے کہ میں اس طرح پاکستان کی آنکھیں چندھیا دوں گا۔ ”صدر“ تو امریکہ کے آدمی ہیں۔ الطاف حسین برطانیہ کے آدمی ہیں۔ امریکہ نے کراچی کے معاملات برطانیہ کے حوالے کر رکھے ہیں۔ کراچی کو فری پورٹ بنانے کا ”منصوبہ“ بہت پرانا ہے مگر کامیابی کا کوئی امکان نہیں شاید اس لئے برطانیہ الطاف حسین سے اکتا چکا ہے؟ برطانیہ میں آج کل الطاف بھائی پریشان ہیں۔ انہیں پریشان برطانوی حکومت نہیں کر رہی۔ برطانوی پولیس کر رہی ہے۔ برطانوی پولیس برطانوی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ پاکستانی حکومت اور سیاست تو چلتی ہی پولیس کے تعاون سے ہے اور پھر وہ اپنا ”تعاون“ چلاتی ہے۔
اب چودھری نثار وزیر داخلہ پاکستان نے برطانوی پولیس سے مکمل تعاون کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ وزیر داخلہ رحمن ملک اور وزیر داخلہ چودھری نثار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ رحمن ملک ابھی تک ”صدر“ زرداری سے سیاست کر رہے ہیں اور چودھری نثار نواز شریف کے ایسے وفادار ہیں کہ دوسری کوئی مثال نہیں ہے۔ چودھری نثار نواز شریف سے اختلاف بھی کر لیتے ہیں اور رحمن ملک ”صدر“ زرداری کا اعتراف بھی مجبوری میں کرتے ہیں۔
”صدر“ زرداری لندن ”بھاگ“ گئے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک وجہ یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ نامور اور جینوئن صنعتکار صدرالدین ہاشوانی نے اپنی سرگزشت میں ”صدر“ زرداری کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے۔ ”صدر“ زرداری خوفزدہ آدمی نہ ہوتے تو اسے نظرانداز کرتے مگر سچ کو نظرانداز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ”صدر“ زرداری نے انہیں دو ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا ہے۔ اس کے ساتھ دانشور اور کالم نگار فرخ سہیل گوئندی کو بھی 50 کروڑ روپے کا نوٹس بھجوایا ہے۔
اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ فرخ گوئندی کے پاس پچاس کروڑ کہاں ہیں؟ تو ”صدر“ زرداری کے خلاف بھی ایک نوٹس بنتا ہے کہ انہوں نے یہ زیادتی کی ہے اور فرخ کا مذاق اڑایا ہے۔ وہ کارکن آدمی ہے اور جمہوری پبلی کیشنز کے ذریعے ایسی کتابیں چھاپنے کی جرات کی ہے، جو کتابیں دوسرا کوئی پبلشر نہیں چھاپتا۔
آج سے کئی سال پہلے میں نے ایک بار امیر عبداللہ خان روکھڑی کے خلاف کالم لکھا تو انہوں نے میرے خلاف دس لاکھ کا نوٹس بھجوا دیا۔ میں نے روکھڑی صاحب کو 20 لاکھ کا نوٹس بھجوا یا کہ انہوں نے میری بے عزتی کی ہے کہ میرے پاس دس لاکھ روپے ہیں ۔ انہوں نے میری غربت اور غیرت کا مذاق اڑایا ہے۔ لوگوں کو اس وقت پتہ چل گیا ہوتا کہ میرے پاس دس لاکھ روپے ہیںتو میرا کیا بنتا۔ فرخ سہیل گوئندی کو بھی ”صدر“ زرداری کے خالاف ہتک عزت کا نوٹس بھجوانا چاہئے۔
صدرالدین ہاشوانی نے اپنی سرگزشت ”سچ کا سفر“ میں لکھا ہے کہ ”صدر“ زرداری میرے ہوٹلوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور مجھے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا۔ وہ پانچ سال کیلئے بیرون ملک چلے گئے تھے۔ یہ بھی جلاوطنی تھی مگر نواز شریف کی جلاوطنی سے مختلف تھی۔ ہاشوانی صاحب کی جلاوطنی اور ہموطنی میں کوئی قدر مشترک تھی۔ نواز شریف نے بھی ہاشوانی صاحب کے بقول انہیں تنگ کیا تھا۔
میریٹ ہوٹل میں دھماکے کیلئے بھی ہاشوانی صاحب کا الزام تھا کہ یہ سب کچھ ”صدر زرداری“ نے کروایا تھا۔ تب وہ ایوان صدر میں تھے۔ وہ ایوان صدر میں اب نہیں ہیںمگر سمگلر ماڈل خاتون ایان علی کی جینوئن تفتیش کرنے والے کسٹم انسپکٹر کو قتل کرا دیا گیا ہے اور کوئی کارروائی تک نہیں ہوئی۔ سب کو پتہ ہے کہ ایان علی کے پیچھے کون ہے۔ ”صدر“ زرداری باہر چلے گئے ہیں اور ایان علی پر پابندی ہے۔ کئی مشکوک لوگوں کو قتل کر دیا گیا ہے اور بی بی شہید کے مقدمے کے سارے گواہ منظرعام سے غائب کر دئیے گئے ہیں۔
”صدر“ زرداری کو چاہئے کہ پاکستان کے تقریباً سب لوگوں کے خلاف نوٹس بھیجیں کہ سب ان کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ اس کے لئے نامور بااختیار شخصیت کو بھی نوٹس بھیجا جائے جنہوں نے فرمایا تھا کہ میں ان کے لوٹے ہوئے پاکستانی پیسے واپس لا¶ں گا اور انہیں کھمبے کے ساتھ لٹکا¶ں گا۔ انہوں نے بعد میں معذرت بھی کی۔ ان کی معذرت سے مجھے دکھ ہوا کہ میں ان سے یہ توقع نہیں رکھتا تھا۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں مادرملت کی برسی پر شاندار تقریب میں وہاں موجود تمام خواتین کو شاہد رشید نے موقع دیا کہ وہ گفتگو کریں۔ میرے کالم میں سہواً بیگم ثریا خورشید کا ذکر نہ ہو سکا۔ بیگم ثریا خورشید نے مادرملت کے ساتھ بہت زندگی گزاری۔ کے ایچ خورشید صاحب مادر ملت کے کہنے پر صدر آزادکشمیر بن گئے۔ وہ قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے۔ بیگم ثریا خورشید نے بہت اچھی باتیں مادرملت کیلئے کیں۔ وہ بہت گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ نظریہ پاکستان کی مختلف تقاریب میں باقاعدگی سے شریک ہوتی ہیں کسی بھی خاتون سے بڑھ کر وہ مادرملت کے قریب رہی ہیں۔