’’ڈی سیٹ‘‘ ہونے کا خطرہ ٹلنے کے بعد پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ
جمعہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس منعقد ہوئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاسوں کا ’’پر سکون‘‘ ماحول میں انعقاد اس بات کی عکاسی کرتا ہے اپوزیشن کا کردار واقعتاً ’’فرینڈلی‘‘ ہے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن اپنے وجود احساس تو دلاتی ہے لیکن ضد کرنے سے گریز کررہی ہے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے جو ’’کپتان‘‘ کمان سے نکلے ہوئے تیروں سے بار بار اپنا سینہ ’’چھلنی‘‘ کرا چکے ہیں عمران خان اور ان کی جماعت کے 28ارکان کو ’’ڈی سیٹ‘‘ ہونے سے بچانے میں ’’مثبت‘‘ کردار ادا کیا ہے انہوں نے ’’چوہے بلی‘‘ کے کھیل کو ختم کرا دیا لیکن تحریک انصاف کی قیادت شاید ہی سید خورشید شاہ کی کوششوں کا اعتراف کرے تحریک انصاف جو اس بات کا دعویٰ کرتے تھکتی نہیں کہ وہ حقیقی اپوزیشن ہے لیکن تحریک انصاف نے پچھلے دو سال ایجی ٹیشن اور دھرنے میں ضائع کر دئیے ’’ڈی سیٹ‘‘ کرنے کی تحاریک کی واپسی کے بعد بھی جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں آئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن بینچوں پر پی ٹی آئی کی ’’غیر حاضری‘‘ کو محسوس کیا گیا، تحاریک کی واپسی کے بعد اس بات کا قو ی امکان تھا کہ جمعہ کو پی ٹی آئی ایوان میں آئے گی، لیکن پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی بنی گالہ میں عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں اس بات پر غور کر ہی تھی کہ انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے کہ نہیں بالآخر اکثریت نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔ پی ٹی آئی ارکان کو ایوان میں واپسی پر ان جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن جماعتوں کے قائدین کی پارلیمنٹ سے باہر کردار کشی کی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض ارکان پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لینا چاہتے ہیں لیکن پارٹی قیادت انہیں ’’صبر و تحمل‘‘ کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے ۔ اس سے قبل بھی حکومتی بینچوں سے پی ٹی آئی کی غیر موجودگی میں تنقید ہوئی پاکستان تحریک انصاف کے ارکان انجانے خوف کا شکار ہیں ۔ جب کہ قومی اسمبلی کی صورتحال ’’پر سکون‘‘ ہے جمع کی سپ پہر کوتحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا چونکا دینے کا اعلان کر دیا گیا ، بنی گالہ میں تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء شاہ محمود قریشی نے دھمکی دی ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں نے عمران خان کی ایوان میں تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی کی تو پھر کوئی بھی حکومتی رکن تقریر نہیں کر سکے گا، ہم نے قوم کے ووٹ کے تقدس کیلئے احتجاج کیا تھا، تحریک انصاف اپنے مینڈیٹ کے مطابق اپنا کردار ادا کرے گی ہمیں معلوم تھا کہ جے یو آئی (ف) اور ایم کیو ایم نے درخواست دے دی ہے تو ہم نے کہا کہ جو بھی فیصلہ کرنا ہے جلد کر لیں ہم نے بھی سوچا کہ یہ حکومت کا معاملہ ہے جب دونوں نے ہمارے خلاف حتاریک واپس لے لی تو ہم نے بھی قومی اسمبلی میں فعال اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر تحریک انصاف کو اسمبلی کا رکن تسلیم کر لیا ہے، 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اینٹی کرپشن صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے رکن اعجاز جاکھرانی سندھ میں نیب کی کارروائی پر احتجاج کیا ہے اور کہا کہ نیب اور ایف آئی اے کو نندی پور پاور پراجیکٹ اور این اے آر سی ممیں کرپشن نظر نہیں آرہی صرف ایک صوبے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومت نے بتایا کہ حکومت کو مئی 2013 میں جی ڈی پی کا 8.8فیصد مالی خسارہ ورثے میں ملا، 30 جون 2013 تک یہ خسارہ 8 فیصد رہ گیا، مالی سال 2013-14ء کیلئے مالی خسارہ ہدف جی ڈی پی 6.3 فیصد تھا جو کہ کم کر کے 5.5فیصد تھا، سال 2014-15 میں مالی خسارہ مزید کم کر دیا گیا ہے اور اس پر رپورٹ تیار کی جا رہی ہے۔ جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں ایوان بالا کے انتخاب کے طریقہ کار پر بحث ہوئی سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں وزیراعظم، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ کے انتخابات اور بجٹ کی منظوری کیلئے ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی پالیسی کو پابند بنا کر پارٹی سربراہان کی آمریت قائم ہو گئی ہے، آئین میں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے کا خاتمہ کیا جائے چیئرمین رضا ربانی نے کہا کہ براہ راست انتخاب کی صورت میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کا فرق ختم ہو جائے گا انہوں نے اس بارے میں ماہرین سے رائے لینے کیلئے ایوان کو کمیٹی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا سینٹ کی مجلس قائمہ برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد اللہ خان نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں مزید ترمیم کے بل 2015ء اور کنٹونمنٹس آر ڈیننس 2002 میں مزید ترمیم کے بل 2015ء کے حوالے سے مجلس قائمہ کی رپورٹ سینٹ میں پیش کر دی۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ملا عمر کی ہلاکت کی بازگشت سنی گئی ہے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بتایا کہ ک طالبان کے مرحوم سربرہ ملاعمر کا پاکستان کی سرزمین پر انتقال ہوا تھا اور نہ یہاں ان کی تدفین ہوئی ہے، طالبان قیادت کے انتخاب کے جھگڑے اور تنازعے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جمعہ کو بولان میڈیکل کالج کے طلباء و طالبات نے سینٹ کی وزیٹر گیلری میں بیٹھ کر سینٹ کے اجلاس کی کارروائی دیکھی۔چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے انہیں سینٹ میں آمد پر خوش آمدید کہا۔